امامت قرأن و حديث کی روشنی ميں



قارئین کرام !   رسول اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلماپنے اس Ù¾Ú¾Ù„Û’ اعلان میں عہد جدید ØŒ جدید معاشرے اورنئی حکومت Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرنا چاہتے ھیں۔

کیونکہ جب کوئی اھم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ھے تو اس رئیساور ایک نائب مقرر کیا جاتا ھے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق هوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جاسکے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین ودنیا) کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جو فقط مادام العمر باقی رھے اور اس کے بعد ختم هوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰھی رسالت ھے اور ھمیشہ باقی رہنے والی ھے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نھیں هوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ھے اس وقت تک یہ دین باقی ھے او رمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا هوگا اور وہ یہ جوان ھے جس نے اس وقت میری مدد ووزارت کا اعلان کیاھے یعنی حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)

اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح هوجاتی ھیں اور شاید یھی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتي فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ھیں، بلکہ ”خلیفتي فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ هوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔

لیکن حقیقت یہ ھے کہ ھم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نھیں پاتے، اور اگر یہ طے هو کہ ”خلفتي فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح هوتی تو پھر ”خلفیتي فیکم“بھی اسی طرح ھے کیونکہ اس کے معنی یہ ھیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آجائے تو تمھارے درمیان علی (ع) خلیفہ ھیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص هوتے ھیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ھے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ھی وصی بنایا جاتا ھے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ھے۔

اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا هو تو کھا جاتا ھے ”ہذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ھے)، ”وصیي“(میرا وصی) نھیں کھا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ھے جو اس شخص کے لئے کھی جاتی ھے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔

لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمنے روز اول Ú¾ÛŒ واضح بیان فرمایاکہ کون میرے بعد میرا خلیفہ هوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی هوگا تاکہ کشتی اسلام  میری وفات Ú©Û’ بعد امواج زمانہ Ú©ÛŒ نذر نہ هوجائے۔

اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ھمیشہ اس پر تاکید فرماتے رھے یھاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں)اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔

دوسری حدیث:  ”حدیث المنزلة“

امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ھے کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:

”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“[33]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next