امامت قرأن و حديث کی روشنی ميں



یھاں تک کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:

”ان اللّٰہ مولای واٴنا مولی الموٴمنین ، وانا اولی بھم من انفسھم، فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ، اللّٰھمّ وال من والاہ وعاد من عاداہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ واٴدر الحق معہ حیثما دار۔“

(اللہ میرا مولا ھے او رمیں مومنین کا مولا هوں اور میں ان کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف هوں پس جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں، خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، خدا یا تو اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے، اور اس کو ذلیل کردے جو علی کو ذلیل کرنا چاھے او رجدھر علی جائیں حق کو ان کے ساتھ موڑدے)

اور جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا یہ کلام تمام هوا تو سب لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مبارکباد دینے کے لئے بڑھے، چنانچہ حضرت عمر نے کھا:

”بخ بخ لک یا علی، اصبحت مولانا ومولی کل مومن ومومنة“

(مبارک هو مبارک اے علی، آپ ھمارے اورھر مومن ومومنہ کے مولا هوگئے)

اس کے بعد جناب جبرئیل یہ آیت لے کر نازل هوئے:

<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاٰمَ دِیْناً>[40]

”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا“

قارئین کرام !   یہ تھا حدیث غدیر کا خلاصہ،اور یہ تھی شان نزول اور یہ تھے الفاظ حدیث، اس حدیث شریف میں نظریہ ”امامت“ Ú©ÛŒ مکمل وضاحت Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’ اور یہ واضح کردیا گیا Ú¾Û’ کہ یہ امامت ØŒ ولایت عام او رمطلقہ مسئولیت Ú©ÛŒ حامل Ú¾Û’ اور سول اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمکی وفات Ú©Û’ بعد جس امام Ú©Û’ بارے میں سوال کیا جارھا تھا اس Ú©Ùˆ رسول اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمنے لوگوںکے سامنے پیش کردیا اور اس حدیث ودلیل Ú©Ùˆ سن کر لوگوں Ù†Û’ اپنا مقصد حاصل کرلیا جس Ú©Û’ نتیجہ میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے Ù„Ú¯Û’Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next