امامت قرأن و حديث کی روشنی ميں



لیکن بعض لوگوں نے فلسفہ چھاڑنا شروع کیا درحالیکہ وہ حدیث کی صحت کا انکار نہ کرسکے بلکہ یہ کھا کہ یہ حدیث آپ کے مدعا کو ثابت نھیں کرتی چونکہ لغت میں لفظ” مولا“ کے بہت سے معنی ھیں جیسے ناصر، ابن عم، رفیق، وراث وغیرہ اور ھم یہ نھیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی مراد کون سے معنی تھے اور کس معنی میں حضرت علی علیہ السلام کو مولا کھا ھے۔

لیکن یہ فلسفہ تراشی خود غرضی اور هوا وهوس کی دین ھے اور نہ ھی معترض نے موضوع میں غور وفکر کیا ھے۔ ان اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل امور رپر توجہ کرنا:

۱۔ اعلان ولایت سے قبل آیہ بلّغ کا نازل هونا چنانچہ مورخین ومفسرین نے روایت کی ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری حج سے واپس آرھے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے وحی فرمائی:

<یَاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>[41]

”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے پهونچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو) تم نے اس کا کوئی پیغام ھی نھیں پهونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“

۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا اعلان ولایت کے لئے جنگل میں ظھر کے وقت کا انتخاب کرنا۔

۳۔کلام پیغمبر میں تینوں ولایت کا ذکر هونا:

الف: اللّٰہ مولای۔

اللہ میرا مولا ھے۔

ب: انامولی المومنین۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next