امامت قرأن و حديث کی روشنی ميں



اس کا یہ سلام لوگوں کو فریب دینے کے لئے تھا تاکہ لوگ اس قریبی رشتہ داری کو دیکھ کر اس کو خلافت کا مستحق مان لیں، لیکن جب امام علیہ السلام نے اس مکر وفریب کو دیکھا تو اس کو بے نقاب کردیا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو مخاطب کرکے کھا:

”السلام علیک یا ابہ“

(اے پدر بزرگوار تم پر سلام هو)

یہ سن کر ھارون الرشید کا سر شرم کی وجہ سے جھک گیا اور اس پر کینہ وکدورت کے آثار ظاھر هونے لگے۔

چنانچہ اس کے بعد سے امام علیہ السلام اور ھارون الرشید میں بہت سے مناظرات هوئے کہ کون رسول اللہ سے زیادہ قریب ھے، ھارون الرشید کی دلیل یہ تھی کہ لڑکی کی اولاد ”ذریت“ اور اس کے اولاد نھیں هوتی۔ کیونکہ ذریت اور ابناء صرف باپ کے ذریعہ منسوب هوتے ھیں ماں کے ذریعہ نھیں۔

لیکن امام علیہ السلام نے ھارون الرشید کو وہ دندان شکن جوابات دئے جن کی وجہ سے اس کو منھ کی کھانی پڑی، ان میں سے بعض کا خلاصہ یہ ھے:

۱۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماب تک زندہ هوتے تو تیری بیٹی سے نکاح کرسکتے تھے لیکن میری بیٹی سے ھر گز یہ قصد نہ کرتے۔

۲۔خداوندعالم کا ارشاد ھے:

<فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ۔۔۔>[84]

”پھر جب تمھارے پاس علم (قرآن) آچکا  اس Ú©Û’ بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) جناب عیسیٰ  (ع) Ú©Û’ بارے میں حجت کرے تو کهو کہ (اچھا میدان میں) آؤ Ú¾Ù… اپنے بیٹوں Ú©Ùˆ بلائیں تم اپنے بیٹوں Ú©Ùˆ بلاؤ۔۔۔۔“

اور اس بات کو تمام مسلمان جانتے ھیں کہ آپ نے مباھلہ میں بیٹوں کی جگہ امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو لیا جو آپ کی بیٹی کی اولاد ھیں اور قرآن کریم نے ان دونوں کو ابناء (بیٹے) کھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next