عورت کا مقام و مرتبہ



سید ارشد حسین موسوی کشمیری

 

 Ù…عاشرتی لحاظ سے پوری تاریخ میں ایسے بہت Ú©Ù… موضوع پائے جاتے ھیں جو عورت Ú©ÛŒ شخصیت یا ھویت Ú©Û’ موضوع Ú©ÛŒ بہ نسبت زیادہ تنقید وغیرہ کا نشانہ بنے Ú¾ÙˆÚº یا ان Ú©Û’ بارے میں متعدد اور مختلف تشریحات Ú©ÛŒ گئی Ú¾ÙˆÚº Û” ابھی بھی یورپی اور مشرقی دنیا میں عورت Ú©Û’ بارے میں غلط، بے ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ اور گمراہ Ú©Ù† نظریات پائے جاتے ھیں Û” ان سب میں صرف انبیاء، اوصیاء اور اھل حق کا واحد مکتب Ú¾Û’ کہ جس میں: “من اخلاق الانبیاء حبُّ النساء Ø› عورتوں سے محبت انبیاء Ú©Û’ اخلاق میں سے ھے”۔ 1 Ú©Û’ ذریعہ افراط Ùˆ تفریط Ú©Û’ بغیر وحی اور خدا سے رابطہ Ú©Û’ ذریعہ اچھی طرح سے عورت Ú©ÛŒ منزلت Ú©Ùˆ بیان کیا جارھا Ú¾Û’ Û” اور اس Ú©ÛŒ صاف Ùˆ شفاف اور ھر قسمی تحریف Ú©Û’ بغیر مکمل صورت اور پیغمبر اکرم (ص) اور اھل بیت (ع) Ú©ÛŒ صحیح سنت Ú©Û’ ذریعے عورت Ú©ÛŒ شخصیت، قدر Ùˆ منزلت اور اس Ú©ÛŒ حیثیت Ú©Ùˆ بیان کیا Ú¾Û’ Û” قرآن Ùˆ سنت Ú©ÛŒ بنیاد پر، عورت کا خلقت اور پیدائش Ú©Û’ لحاظ سے مرد سے کسی قسم کا کوئی فرق نھیں Ú¾Û’ØŒ البتہ مرد Ú©Û’ ساتھ بعض چیزوں میں شریک ھونے Ú©Û’ باوجود خدائے متعال Ú©ÛŒ حکمت اور لطف Ú©ÛŒ بنا پر بعض چیزوں میں اس Ú©ÛŒ استعداد، اس Ú©Û’ وظائف اور حقوق وغیرہ مردوں سے مختلف ھیں Û”

 Ù‚رآن کریم اور سنت سے جو Ú©Ú†Ú¾ ھمیں ملتا Ú¾Û’ وہ یھی Ú¾Û’ کہ عورت لطیف اور رحمت Ú¾Û’ Û” اس Ú©Û’ ساتھ لطف Ùˆ کرم اور مھربانی Ú©ÛŒ جائے، اچھا سلوک کیا جائے Û” اس Ú©Û’ ساتھ ساتھ اس Ú©Û’ ظریف اور نازک وجود Ú©ÛŒ تعریف Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’ Û” نھج البلاغہ میں تقریباً Ù¢Ûµ جگھوں پر خطبوں، خطوط اور کلمات قصار میں عورتوں Ú©Û’ بارے میں گفتگو Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’ Û” 2 جن میں سے چند ایک موارد Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر باقی ایسی احادیث، جملات یا کلمات ھیں کہ جن کا مطالعہ کرنے سے لوگ ابتدا میں یہ محسوس کرسکتے ھیں کہ نھج البلاغہ میں عورتوں Ú©Û’ متعلق منفی نظریہ پایا جاتا Ú¾Û’ اور یھی چیز کافی Ú¾Û’ کہ جوانوں اور خواتین Ú©Û’ درمیان نھج البلاغہ Ú©Û’ بارے میں Ø´Ú© Ùˆ تردید پیدا Ú¾Ùˆ جائے Û” خاص کر آج Ú©Ù„ Ú©Û’ زمانے میں کہ جھاں عورتیں سیاسی، تربیتی، ثقافتی اور اجتماعی امور میں پیش پیش ھیں، اگر Ú¾Ù… اس سلسلے میں ان ابہامات Ú©Ùˆ دور نہ کرسکیں، ان Ú©Û’ سوالوں Ú©Û’ جواب نہ دے سکیں اور ان شبہات کا جو جوانوں اور خواتین Ú©Û’ ذھنوں میں نھج البلاغہ Ú©ÛŒ بہ نسبت ایجاد ھوئے ھیں، کا جواب نہ دے سکیں تو ھمیں ان Ú©Û’ گمراہ اور اسلامی ثقافت سے منحرف رھنے کا شائبہ رھنا چاھئے Û” اور پھر اس گمراھی اور ضلالت Ú©Û’ Ú¾Ù… خود Ú¾ÛŒ ذمہ دار Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ Û” اس Ú©Û’ علاوہ ظاھر سی بات Ú¾Û’ کہ ائمہ معصومین (ع) خاص کر حضرت امیر المومنین علی (ع) Ú©Û’ کلام مبارک کا کوئی تربیتی اثر نھیں ھوگا بلکہ اس طرح Ú©Û’ جوان اور ھمارہ معاشرہ ائمہ (ع) Ú©Û’ بارے میں بدظن ھوکر ان سے دوری اختیار کرے گا اور انھیں اپنے لئے اسوہ اور نمونہ بنانے سے اجتناب کرے گا Û”

 Ø§Ø³ مضمون میں نھج البلاغہ میں عورتوں Ú©Û’ بارے میں موجود عبارتوں Ú©Û’ بارے میں Ú©Ú†Ú¾ نظریات ذکر کئے گئے ھیں اور معاشرے پر اس Ú©Û’ کیا اثرات مرتب ھوسکتے ھیں اور ساتھ Ú¾ÛŒ آخر میں اصلی اور صحیح نظریہ بھی بیان کیا گیا Ú¾Û’ Û” نیز اس Ú©Û’ بعض تربیتی پہلو بھی بیان کئے گئے ھیں اگرچہ محدودیت Ú©ÛŒ بنا پر اختصار سے کام لیا گیا Ú¾Û’ لیکن قارئین گرامی خود تحقیق کر Ú©Û’ اس Ú©Û’ دلائل سے آگاھی حاصل کرسکتے ھیں Û”

 

پہلا نظریہ: عورت کا شر ھونا

نھج البلاغہ کی بعض عبارتوں کو پڑھ کر یہ احساس ھوتا ھے کہ حضرت علی (ع) نے بھی عورت کو شر قرار دیا ھے ۔ مثلاً حضرت علی (ع) فرماتے ھیں :

“المرأة شرّ کلّھا و شرّ ما فیھا انّہ لابدّ منھا”عورت کا پورا وجود شر ھے اور سب سے بڑا شر یہ ھے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نھیں ھے ۔ 3

 Ù†Ú¾Ø¬ البلاغہ میں اس طرح Ú©Û’ بہت سے موارد موجود ھیں کہ جن میں اگر ابتدائی اور سطحی نظر سے دیکھا جائے تو مخاطب اس نتیجہ تک پہنچتا Ú¾Û’ کہ اس کتاب میں بھی دوسری پرانی کتابوں Ú©ÛŒ طرح عورت Ú©Ùˆ ایک شر، آلودہ اور پلید وجود سمجھا گیا Ú¾Û’ Û” یہ بات قابل ذکر Ú¾Û’ کہ قدیم زمانے میں یہ نظریہ پہلے سے موجود تھا اور بہت پہلے سے انسانوں میں یہ فکر ( عورت کا شر یا پلید اور منحوس ھونا ) رائج تھی Û” بعض لوگ قائل تھے کہ عورت بائیں پسلی یا شیطان Ú©ÛŒ پسلیوں سے پیدا ھوئی Ú¾Û’ اور یہ شیطان Ú©ÛŒ ایک آلہ کار Ú¾Û’ جو مردوں Ú©Ùˆ اغوا کرنے Ú©Û’ لئے استعمال Ú©ÛŒ جاتی Ú¾Û’ Û” جیسا کہ عھد عتیق میں صراحت Ú©Û’ ساتھ یہ نظریہ بیان کیا گیا Ú¾Û’ Û” اسی وجہ سے مختلف قوموں، ملتوں، امتوں اور تہذیبوں میں عورت کو”ام المفاسد”( فساد Ú©ÛŒ جڑ ) Ú©Û’ نام سے یاد کیا جاتا تھا Û” وہ قائل تھے کہ عورت فساد پیدا کرنے والی مخلوق Ú¾Û’ لھٰذا اسے کنٹرول کیا جانا چاھئے ورنہ یہ پورے معاشرے Ú©Ùˆ فساد اور گمراھی میں مبتلا کرسکتی Ú¾Û’ Û”

 Ø§Ø¨Ù† میثم بحرانی اسی حکمت ( ٢٣٨ ) Ú©Û’ ذیل میں لکھتے ھیں :

 Ø¹ÙˆØ±ØªØŒ مرد Ú©Û’ لئے مکمل طور پر شر Ú¾Û’ØŒ سے مراد یہ Ú¾Û’ کہ چونکہ عورت کا نفقہ مرد پر واجب ھوتا Ú¾Û’ جو کہ ظاھر Ú¾Û’ یا پھر اس سے لذت حاصل کرنا مراد Ú¾Û’ کیونکہ یہ بھی خود خدا سے اور اس Ú©ÛŒ اطاعت سے روکنے اور دور کرنے کا سبب بنتی Ú¾Û’ ھاں مرد Ú©Û’ لئے اس Ú©Û’ علاوہ کوئی چارہ کار بھی نھیں Ú¾Û’ Û” اس کا مطلب یہ Ú¾Û’ کہ چونکہ انسان Ú©ÛŒ طبیعت اور اس دنیاوی وجود کا تقاضا یھی Ú¾Û’ کہ انسان Ú©Ùˆ ھمیشہ اس Ú©ÛŒ ضرورت رھے اور اپنی ضروریات Ú©Ùˆ اس سے پورا کرے اور ان Ú¾ÛŒ ضرورتوں Ú©ÛŒ وجہ سے مرد عورت Ú©Ùˆ برداشت کرتا Ú¾Û’ Û” البتہ عورت Ú©Û’ باطن میں شر کا وجود ایک ایسی علت Ú¾Û’ جو معلول سے بھی قوی تر Ú¾Û’ Û” 4

 ÙˆÛ اسی طرح مولا علی (ع) Ú©ÛŒ اس فرمائش Ú©Û’ بارے میں لکھتے ھیں :



1 2 3 4 5 6 7 8 9 next