امامت پر عقلی اور منقوله دلايل



اس جملے میں امامت Ú©Ùˆ خداوند متعال Ú©Û’ عھد سے تعبیر کیا گیا Ú¾Û’ جس پر صاحب عصمت Ú©Û’ علاوہ کوئی دوسرا فائز نھیں هو سکتا اور اس میں بھی Ø´Ú© وتردید نھیں کہ حضرت ابراھیم(ع) Ù†Û’ اپنی پوری Ú©ÛŒ پوری نسل Ú©Û’ لئے امامت نھیں چاھی هو Ú¯ÛŒ کیونکہ یہ بات ممکن Ú¾ÛŒ نھیں کہ خلیل اللہ Ù†Û’ عادل پرودرگار سے کسی غیر عادل Ú©Û’ لئے انسانیت Ú©ÛŒ امامت Ú©Ùˆ طلب کیا هو، لیکن چونکہ حضرت ابراھیم   (ع) Ù†Û’ اپنی عادل ذریت Ú©Û’ لئے جو درخواست Ú©ÛŒ تھی،اس Ú©ÛŒ عمومیت کا دائرہ ذریت Ú©Û’ اس فرد Ú©Ùˆ بھی شامل کررھا تھا جس سے گذشتہ زمانے میں ظلم سرزد هوچکا هو۔لہٰذا خدا Ú©ÛŒ جانب سے دئے گئے جواب  کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عادل Ú©Û’ حق میں آپ Ú©ÛŒ یہ دعا مستجاب نھیں جن سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ گناہ سرزد هو Ú†Ú©Û’ ھیں بلکہ Ø­Ú©Ù… عقل وشرع Ú©Û’ مطابق امامت مطلقہ Ú©Û’ لئے عصمت وطھارت مطلقہ شرط ھیں۔

تیسری آیت :

<یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اٴَطِیْعُو اللّٰہَ وَاٴَطِیْعُوا لرَّسُوْلَ وَاٴُوْلِی اْلاٴَمْرِ مِنْکُمْ>[7]

اس آیت کریمہ میں اولی الامر Ú©Ùˆ رسول پر عطف لیا گیا Ú¾Û’ اور دونوں میں ایک <اطیعوا>پر اکتفا کرنے سے یہ بات ظاھر هوتی Ú¾Û’ کہ اطاعت اولی الامر اور اطاعت رسول  (ص)Ú©Û’ وجوب Ú©ÛŒ سنخ وحقیقت ایک Ú¾ÛŒ Ú¾Û’ اور اطاعت رسول  (ص)Ú©ÛŒ طرح، جو وجوب میں بغیر کسی قید وشر Ø· اور واجب میں بغیر کسی حد Ú©Û’ØŒ لازم وضروری Ú¾Û’ اور اس طرح کا وجوب ولی Ù‘ امر Ú©ÛŒ عصمت Ú©Û’ بغیر نا ممکن Ú¾Û’ØŒ کیونکہ کسی Ú©ÛŒ بھی اطاعت اس  بات سے مقید Ú¾Û’ کہ اس کا Ø­Ú©Ù…ØŒ اللہ تعالی Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… کا مخالف نہ هو اور عصمت Ú©ÛŒ وجہ سے معصوم کا فرمان، خد اکے فرمان Ú©Û’ مخالف نھیں هو سکتا، لہٰذا اس Ú©ÛŒ اطاعت بھی تمام قیود وشرائط سے آزاد Ú¾Û’Û”

اس اعتراف Ú©Û’ بعد کہ امامت، در حقیقت دین Ú©Û’ قیام اور مرکزِ ملت Ú©ÛŒ حفاظت Ú©Û’ لئے، رسول  (ص)Ú©ÛŒ ایسی جا نشینی کا نام Ú¾Û’ کہ جس Ú©ÛŒ اطاعت وپیروی پوری امت پر واجب Ú¾Û’[8] اور <إِنَّ اللّٰہَ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ >[9] <یَاٴْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ>[10] Ú©Û’ مطابق اگر ولی امر معصوم نہ هو تو اس Ú©ÛŒ اطاعت ِمطلقہ کا لازمہ یہ Ú¾Û’ کہ خدا ظلم ومنکر کا امر کرے اور عدل ومعروف سے Ù†Ú¾ÛŒ کرے۔

اس Ú©Û’ علاوہ، ولی امر Ú©Û’ غیر معصوم هونے Ú©ÛŒ صورت میں عین ممکن Ú¾Û’ کہ اس کا Ø­Ú©Ù… خدا اور رسول Ú©Û’ فرمان  سے ٹکرائے اور اس صورت میں اطاعتِ خدا Ùˆ رسول  (ص)اور اطاعت ولی امر کا Ø­Ú©Ù…ØŒ اجتماع ضدین اور ایک امر ِمحال هو گا۔

لہٰذا، نتیجہ یہ هوا کہ کسی قید وشرط کے بغیر اولی الامر کی اطاعت کا حکم، اس بات کی دلیل ھے کہ ان کا حکم خدا اور رسول کے فرمان کے مخالف نھیں ھے اور خود اسی سے عصمت ولی امر بھی ثابت هو جاتی ھے۔

اور یہ کہ معصوم کا تعین عالم السر و الخفیات کے علاوہ کسی اور کے لئے ممکن نھیں ھے۔

ج۔قضاوت سنت:

(اھل سنت کے سلسلوں سے مروی روایات کے ذریعے امامت امیر الموٴمنین (علیہ السلام) پر استدلال کا مقصد اتمام حجت اور جدال احسن ھے۔ ورنہ متواتر احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت هونے کے بعد کہ قرآن و سنت میں بیان کردہ امامت کی شرائط، آپ کے نفس قدسی میں موجود ھیں، مذکورہ بالا طریقہٴ استدلال کی قطعاً ضرورت نھیں۔اھل سنت سے منقول روایات پر ”صحیح“ کا اطلاق انھی کے معیار و میزان کے مطابق کیا گیا ھے، اور شیعہ سلسلوں سے منقول روایات پر صحیح کا اطلاق اھل تشیع کے مطابق روایت کے معتبر هونے کی بناء پر ھے۔ اب خواہ یہ روایات اصطلاحاً صحیح هوں یا موثق، اور اس کا انحصار شیعہ علم رجال کے معیار و میزان پر ھے۔)

سنت رسول کی پیروی، ادراکِ عقل کے تقاضے اور حکم کتاب خدا کے مطابق ھے کہ معصوم کی پیروی کرنا ضروری ھے <وَمَا اٴَتَاکُمُ الرَّسُوَلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا>[11]

اور Ú¾Ù… سنت میں سے فقط ایسی حدیثیں بیان کریں Ú¯Û’ جس کا صحیح هونا مسلّم اور فرمان خدا Ú©Û’ مطابق ان کا قبول کرنا واجب Ú¾Û’Û” اس حدیث Ú©Ùˆ فریقین Ù†Û’ رسول خدا  (ص) سے نقل کیا Ú¾Û’ اور آنحضرت  (ص) سے صادر هونے Ú©ÛŒ تصدیق بھی Ú©ÛŒ Ú¾Û’Û” اگر چہ اس حدیث Ú©Ùˆ متعدد سلسلہ ھائے اسناد Ú©Û’ ساتھ نقل کیا گیا Ú¾Û’ØŒ لیکن Ú¾Ù… اسی ایک پر اکتفا کرتے ھیں جس کا سلسلہ سند زیادہ معتبر Ú¾Û’Û” اور وہ روایت زید بن ارقم سے منقول Ú¾Û’:



back 1 2 3 4 5 6 7 next