امامت پر عقلی اور منقوله دلايل



((قال:لما رجع رسول اللّٰہ (ص) من حجة الوداع ونزل غدیر خم اٴمر بدوحات فقممن، فقال:کاٴنی قد دعیت فاٴجبت، إنی قد ترکت فیکم الثقلین اٴحدھما اٴکبر من الآخر کتاب اللّٰہ و عترتی فانظروا کیف تخلفونی فیھما، فإنھما لن یتفرقا حتی یردا علیّ الحوض، ثم قال: إن اللّٰہ عزّ و جلّ مولای و اٴنا مولی کل موٴمن، ثم اٴخذ بید علی رضی اللّٰہ عنہ فقال: من کنت مولاہ فہذا ولیہ، اللّھم وال من والاہ و عاد من عاداہ، وذکر الحدیث بطولہ ))[12]

 Ø§Ù…ت Ú©ÛŒ امامت آنخضرت  (ص) Ú©ÛŒ نگاہ میں اتنی زیادہ اھمیت Ú©ÛŒ حامل تھی کہ آپ  (ص) Ù†Û’ نہ صرف حجة الوداع سے لوٹتے وقت بلکہ مختلف مواقع پر، حتی زندگی Ú©Û’ آخری لمحات میں موت Ú©Û’ بستر پر، جب اصحاب بھی آپ Ú©Û’ کمرے میں موجود تھے، کتاب وعترت Ú©Û’ بارے میں وصیت فرمائی، کبھی ((انی قد ترکت فیکم الثقلین))[13] اور کبھی ((انی تارک فیکم خلیفتین))ØŒ[14] بعض اوقات ((انی تارک فیکم الثقلین))[15] Ú©Û’ عنوان سے اور کسی وقت ((لن یفترقا))[16] اور کبھی((لن یتفرقا))[17] Ú©ÛŒ عبارت Ú©Û’ اضافے Ú©Û’ ساتھ اور بعض مناسبتوں پر ((لا تقدموھما فتھلکوا ولا تعلموھما فإنھما اٴعلم منکم ))[18] اور کبھی اس طرح گویا هوئے ((إنی تارک فیکم اٴمرین لن تضلوا إن اتبعتموھما))[19]

اگرچہ کلام رسول خدا   (ص) میں موجود تمام نکات Ú©Ùˆ بیان کرنا تو میسر نھیں، لیکن چند نکات Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتے ھیں :

۱۔جملہ ((انی قد ترکت))اس بات Ú©Ùˆ بیان کرتاھے کہ امت Ú©Û’ لئے آنحضرت   (ص) Ú©ÛŒ طرف سے قرآن وعترت بطور ترکہ ومیراث ھیں، کیونکہ پیغمبر اسلام   (ص) Ú©Ùˆ امت Ú©ÛŒ نسبت باپ کا درجہ حاصل Ú¾Û’ØŒ اس لئے کہ انسان جسم وجان کا مجموعہ Ú¾Û’ اور روح Ú©Ùˆ جسم سے ÙˆÚ¾ÛŒ نسبت Ú¾Û’ جو معنی Ú©Ùˆ لفظ او ر مغز Ú©Ùˆ Ú†Ú¾Ù„Ú©Û’ سے Ú¾Û’Û” اعضاء اور جسمانی قوتیں انسان Ú©Ùˆ اپنے جسمانی باپ سے ملی ھیں اور عقائد حقہ، اخلاق فاضلہ واعمال صالحہ Ú©Û’ ذریعے میسر هونے والے روحانی اعضاء وقوتیں، پیغمبر   (ص)Ú©Û’ طفیل نصیب هوئی ھیں،جو انسان Ú©Û’ روحانی باپ ھیں۔روحانی سیرت وعقلانی صورت Ú©Û’ افاضے کا وسیلہ اور مادی صورت وجسمانی ھیئت Ú©Û’ افاضے کا واسطہ، آپس میں قابل قیاس نھیںھیں،جس طرح مغز کاچھلکے سے، معنی کا لفظ سے اور موتی کا سیپ سے کوئی مقابلہ نھیں۔

ایسا باپ اپنے اس جملے ((کاٴنی قددعیت فاجبت ))سے اپنی رحلت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے لئے میراث وترکہ معین فرما رھا ھے کہ امت کے لئے میرے وجود کا حاصل اور باقی دو چیزیں ھیں ((کتاب اللّٰہ وعترتی ))

 Ù‚رآن امت Ú©Û’ ساتھ خدا، اور عترت امت Ú©Û’ ساتھ رسول  (ص)کا رابطہ ھیں۔ قرآن سے قطع رابطہ خدا Ú©Û’ ساتھ قطع رابطہ او ر عترت سے قطع رابطہ پیغمبر اکرم  (ص) Ú©Û’ ساتھ قطع رابطہ Ú¾Û’ اور پیغمبر خدا سے قطع رابطہ خود خدا سے قطع رابطہ Ú¾Û’Û”

اضافہ Ú©ÛŒ خصوصیت یہ Ú¾Û’ کہ مضاف، مضاف الیہ سے کسب حیثیت کرتا Ú¾Û’Û” اگرچہ قرآن کا خدا Ú©ÛŒ جانب اور عترت کا پیغمبر خاتم  (ص)،جو کائنات Ú©Û’ شخص اول ھیں، Ú©ÛŒ طرف اضافہ، قرآن وعترت Ú©Û’ مقام Ùˆ منزلت Ú©Ùˆ واضح وروشن کر رھا Ú¾Û’ لیکن مطلب Ú©ÛŒ اھمیت Ú©Ùˆ مد نظر رکھتے هوئے   آنحضرت  (ص) Ù†Û’ ان دو Ú©Ùˆ ثقلین سے تعبیر کیاھے جس سے پیغمبر اکر Ù…  (ص) Ú©ÛŒ اس میراث Ú©ÛŒ اھمیت اور سنگینی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا Ú¾Û’Û”

قرآن Ú©Û’ معنوی وزن Ú©ÛŒ سنگینی اور نفاست،ادراک عقول سے بالاتر Ú¾Û’ØŒ اس لئے کہ قرآن مخلوق Ú©Û’ لئے خالق Ú©ÛŒ تجلی Ú¾Û’ اور عظمت قرآن Ú©Ùˆ درک کرنے Ú©Û’ لئے یہ چند آیات کافی ھیں<یٰسٓةوَالْقُرآنِ الْحَکِیْمِ>[20]<قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ>[21]ØŒ <إِنَّہ لَقُرْآنٌ کَرِیْمٌة فِی کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍةلاَ  یَمَسُّہ إِلاَّالْمُطَہَّرُوْنَ >[22]<لَوْ اٴَنْزَلْنَا ھٰذَا القُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاٴَیَتَہ خَاشِعاً مُّتَصَدِِِّعاً مِِّنْ خَشْیَةِ اللّٰہِ ÙˆÙŽ تِلْکَ اْلاٴَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ>[23]

اور عترت وقرآن کو ایک ھی وصف سے توصیف کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ھے کہ کلام رسول اللہ (ص) کے مطابق عترت، قرآن کی ھم پلہ وشریک وحی ھے۔

پیغمبر خاتم  (ص)Ú©Û’ کلام میں، جو میزان حقیقت Ú¾Û’ØŒ عترت کا ھمسرِ قرآن هونا ممکن نھیں مگر یہ کہ عترت <تِبْیَاناً لِِّکُلِّ شَیْءٍ>[24] میں شریک علم اور <لاَ یَاٴْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہ>[25] میں شریک عصمت قرآن هو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next