موت سےآب حیات تک



موت سےآب حیات تک

کار کا پہیہ پنکچر ہوا اور کربی کو جھلستے ہوئے صحرا میں پہیہ بدلنے کی مشقت سے گزرنا پڑا۔ پہیہ بدلتے ہوئے اس کا لباس پسینے کے باعث جسم سے چپک گیا۔ اسے اپنے آپ سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔ اچانک گھوڑے کی ہنہناہٹ سن کر اس نے مڑ کر دیکھا اور پھر وہ کئی لمحوں تک حیرتوں میں گم رہا۔ سو گز کے فاصلے پر کم از کم پچاس گھڑ سوار نیم دائرے کی شکل میں کھڑے تھے۔ ان کی نگاہیں کربی پر گڑی تھیں اور غصے سے سرخ چہروں سے ان کے برے ارادے ظاہر ہو رہے تھے۔

اس نیم دائرے سے غصیلی شکل کا ایک شہسوار گھوڑے کو دلکی چال چلاتا اس کی طرف بڑھا۔ کوئی اور گھوڑا پھر ہنہنایا۔ کربی اٹھ کر کھڑا ہوا۔ پسینہ اس کے ماتھے سے ٹپک رہا تھا۔ آنے والے کو اس نے فوراً پہچان لیا جو گھوڑے پر سوار اس کے قریب پہنچا اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے اس نے کہا: "السلام علیکم!"

کربی نے جواب دیا: "وعلیکم السلام شیخ یوسف!" پھر مصافحے کے لیے آگے بڑھا تو گھڑ سوار نے اس کا آگے پھیلا ہوا ہاتھ نظر انداز کر دیا۔ کربی صورت حال کی سنگینی اور نزاکت بھانپ کر خوفزدہ ہوگیا۔ وہ اس خطے کے آداب اور تمدن سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔

وہ نابلس میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے شام ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب بڑا ہوا تو اعلی تعلیم کے لیے امریکا بھیج دیا گیا جہاں اس نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ کیبل کمپنی نے اسے شام میں نابو کے مقام پر اپنی ایک کان میں اعلی عہدے کی پیش کش کی اور وہ شام واپس آگیا۔

وہ جانتا تھا کہ جب کوئی مصافحے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ نظر انداز کر دے تو وہ دوست نہیں ہوتا۔

گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے شیخ یوسف نے کہنا شروع کیا: "کربی صاب! آپ کے خیمے کے باہر کالا اونٹ بیٹھ چکا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ دو راتیں گزریں جب میرا ایک عزیز بنو زیاد قتل کر دیا گیا تھا۔۔۔۔"

کربی نے اپنے ہوش و حواس سنبھالتے ہوئے جواب دیا: "اللہ بنو زیاد پر اپنی رحمت نازل کرے! اس کی قبر سے ہمیشہ گلاب کے پھولوں کی مہک آتی رہے اور وہ کروٹ کروٹ۔۔۔۔"

شیخ یوسف نے بڑے تیز اور درشت لہجے میں کربی کی بات کاٹ دی۔ اس کا لہجہ بھی یکسر بدل گیا تھا۔ وہ بولا: "کربی صاب! تمھارے یہ خوشامدی جملے مجھے متاثر نہیں کر سکتے۔ تم اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مجھے ہرگز چکمہ نہیں دے سکتے۔ بنو زیاد کو تمھارے خیمے کے سامنے گولی ماری گئی تھی۔۔۔۔ کان کے اس علاقے میں جس کے بڑے افسر تم ہو۔۔۔۔"

معاملہ بگڑتا جا رہا تھا۔ کربی نے بڑے جذباتی انداز میں جواب دیا: "اس جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو شیخ یوسف جس نے آپ کو ورغلایا۔ ہاں جیسا آپ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کو وہاں گولی ماری گئی تھی تو شیخ، وہ شخص آپ کے معزز قبیلے کا رکن نہیں تھا۔ وہ تو آوارہ گرد اور چور تھا۔ گارد کے سپاہیوں نے اسے میرے خیمے سے گھسٹتے ہوئے باہر نکلتے دیکھا۔ رات بڑی تاریک تھی، اس لیے کوئی اس کی صورت نہ دیکھ سکا۔ وہ خیمے سے کینوس کا بیگ چوری کرکے نکلا تھا، جس میں مزدوروں کی تنخواہ کی رقم تھی۔ گارد نے گولی چلائی اور وہ چور گر پڑا۔ جب ہم وہاں لالٹین لے کر پہنچے تو چور کے ساتھی اس کی لاش گھسیٹ کر لے جا چکے تھے۔ میں اس وقت پولیس اسٹیشن ہی سے آ رہا ہوں جہاں میں نے چوری کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ وہ شخص چور تھا جسے گولی ماری گئی شیخ یوسف! آپ کا احترام۔۔۔۔"

"تم وقت ضائع کر رہے ہو کربی صاب۔" شیخ یوسف نے تیزی سے کہا۔ "تم جانتے ہو کہ یہاں کا قانون کیا ہے۔"



1 2 next