موت سےآب حیات تک



کربی نے اپنے آپ سے کہا۔ ہاں میں یہاں کا قانون جانتا ہوں۔ قتل کا بدلہ قتل۔۔۔۔ جان کے بدلے جان، دانت کے بدلے دانت۔۔۔۔ اور چونکہ چور اس علاقے میں اس کے آدمیوں سے مارا گیا ہے، اس لیے اس قتل کا ذمے دار بھی وہی ہے۔ مقامی اور قبائلی قانون کے تحت وہی سزا کا حق دار تھا۔

اس نے آنکھیں اٹھا کر سو ڈیڑھ سو گز دور کھڑے گھڑ سواروں کو دیکھا۔ نیم دائرے میں کھڑے تمام سوار اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ تلواروں اور نیزوں سے لیس تھے۔ بعضوں کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔ کربی نے سوچا شیخ یوسف کا ایک اشارہ پا کر وہ سب اس پر پل پڑیں گے۔ اس کی تکا بوٹی کرکے رکھ دیں گے۔ میں یہاں صحرا میں ہوں۔ دور دور تک کوئی جان دار ہے نہ آبادی۔ مجھے کسی طرف سے کسی طور مدد نہیں مل سکتی۔ کسی طرح بھی میں کسی کو اپنی جان بچانے کے لیے آواز نہیں دے سکتا۔ ترکی فوجوں کی چھاؤنی دور ہے۔۔۔۔ پولیس کا تھانہ اس سے بھی دور ہے اور کان کے محافظ بھی اس کی پہنچ سے باہر ہیں۔۔۔۔

 Ø§Ø³ Ù†Û’ اپنی کار Ú©Ùˆ کوسا جس کا پہیہ پنچر ہوا اور اسے رکنا پڑا۔ وہ دشمنوں Ú©Û’ نرغے میں تھا۔ زمین سخت سنگلاخ تھی اور آسمان بہت دور۔۔۔۔ جان پر بنی ہو تو ذہن تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔۔۔۔ اور پھر اس Ù†Û’ بڑی سنجیدگی سے شیخ یوسف Ú©Ùˆ مخاطب کیا: "اے شیخ! میرا حلق پیاس سے خشک ہو رہا ہے۔ میں اس علاقے میں تمھارا مہمان ہوں اور میں جانتا ہوں کہ عربوں Ú©ÛŒ مہمان نوازی اپنی مثل آپ ہے۔ مجھے پانی پلاؤ۔"

شیخ یوسف کے چہرے پر بے چینی تھی۔ اس نے جلدی سے مشکیزے کے ساتھ لٹکا ہوا کدو کا بنا پیالہ اتار کر مشکیزہ کھولا اور پیالہ پانی سے بھر کر کربی کو تھما دیا۔ کربی نے پیالہ تھام کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور پیالے کو ہونٹوں سے چھو کر پیچھے ہٹا لیا۔

"دیر مت کرو، جلدی سے پانی پیو۔" غصیلے شیخ یوسف کی درشت آواز صحرا میں گونجی۔ "جلدی پانی پیو اور بتاؤ تم تلوار سے مرنا پسند کرو گے یا بندوق کی گولی یا خنجر سے۔۔۔۔؟"

کربی نے ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا: "اے شیخ! یہ تمھارے قبیلے کی روایت ہے کہ وہ شخص جو کھا یا پی رہا ہو، اسے کھانے اور پینے کے دوران میں کبھی قتل نہیں کیا جاتا، اس پر کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا۔"

"بڑ بڑ مت کرو۔ میں اپنی روایات تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔" شیخ یوسف کے لہجے میں غصہ اور بے چینی نمایاں تھی۔ "جب تم پانی پی رہے ہوگے تو تم پر کوئی وار نہیں کرے گا۔ پیالہ جلدی سے خالی کر دو۔۔۔۔"

"ہاں، ہاں جب تک تم یہ پانی نہیں پی لو گے، تم پر نہ میں وار کر سکتا ہوں نہ میرے قبیلے کا کوئی فرد، لیکن باتیں مت بناؤ۔ اس سے تمھیں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ تم اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہے ہو۔ تمھیں مرنا ہے اور بس۔۔۔۔"

کربی نے ایک بھرپور نگاہ شیخ یوسف پر ڈالی۔ کدو کا بنا ہوا پیالہ دونوں ہاتھ میں اوپر اٹھایا اور پھر اسے الٹ دیا۔ پانی صحرا کی ریتلی زمین پر گرا جسے صدیوں کی جھلسی ہوئی ریت نے لمحوں میں جذب کر لیا۔

"شکریہ یا شیخ!" کربی نے کہا: "وہ پانی جسے ختم کرنے اور پینے سے پہلے تم اور تمھارے قبیلے کا کوئی فرد مجھ پر وار نہیں کر سکتا، صحرا کی ریت میں جذب ہوگیا ہے۔ اپنے آدمیوں سے کہو وہ ریت سے قطرہ قطرہ کرکے وہ پانی پھر سے اس کدو کے پیالے میں جمع کریں اور پھر میں اسے پی لوں۔ جب تک یہ پانی تم اور تمھارے آدمی ریت سے قطرہ قطرہ نکال کر پھر سے پیالے میں جمع نہیں کر لیتے، تم اور تمھارے آدمی مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہی تمھارا قاعدہ ہے۔ یہی قول تم نے مجھے دیا ہے۔۔۔۔ یا شیخ یوسف! میں جانتا ہوں تم اپنے قول پر جان دینے والے انسان ہو۔"

شیخ یوسف کے چہرے پر جو غصہ اور بے چینی تھی وہ بے بسی میں تبدیل ہوگئی۔ کربی خاموشی سے پھر کار کے پاس بیٹھ کر پہیہ کسنے لگا۔ اس کے دل سے خوف نکل چکا تھا۔

چند منٹوں بعد اس نے آنکھیں اوپر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔ جس خاموشی سے شیخ یوسف اسے ٹھکانے لگانے اپنے آدمیوں کے ساتھ آیا تھا، اسی خاموشی سے وہ جا چکا تھا۔

کربی نے زمین کے اتنے حصے کو دیکھا جس کی ریت کچھ نم اور بھربھری تھی۔

وہ مسکرایا: "یہ وہ آب حیات ہے جسے میں نے چکھا نہیں اور زندہ رہا۔ چکھ لیتا تو زندہ نہ رہتا۔۔۔۔"

وہ تیزی سے پہیے کے قبضے کسنے لگا!

 



back 1 2