حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام



حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت ۷/ صفر ۱۳۸ھء میں ھوئی تھی۔ آپ کی والدۂ گرامی کا نام حمیدہ تھا۔ آپ کے دوسرے مشھور القاب باب الحوائج اور عبد صالح ھیں۔

آپ اپنے والد بزرگوار کی شھادت کے بعد خدا کے حکم اور آباء و اجداد کے تعارف سے امامت کے منصب پر فائز ھوئے۔ ساتویں امام(ع)، عباسی خلفاء منصور، ھادی، مھدی اور ھارون کے ھم عصر تھے۔ آپ بھت ھی تاریک اور مشکل دور میں خاموشی کے ساتھ (سخت تقیہ کی حالت میں) بھت کٹھن زندگی گزارتے رھے۔

مسلمانوں مخصوصاً شیعوں کے حالات کی اصلاح کے لئے آپنے بھی وھی طریقہ استعمال کیا تھا جو آپ کے والد امام جعفر صادق علیہ السلام نے شروع کیا تھا یعنی آپ کی بھی کوشش یھی تھی کہ مسلمانوں کے درمیان پھیلے ھوئے انحرافات اور غلط عقائد و رسوم کو اسلام کے صحیح اور حقیقی احکام و عقائد میں تبدیل کردیں۔ اس کے لئے آپ ھمیشہ عقلی دلیلوں کے ذریعے غلط افکار و عقائد کو باطل کرکے صحیح اسلام لوگوں تک پھونچایا کرتے تھے اور لوگوں کو ان کی غلطیوں سے آگاہ فرمایا کرتے تھے۔

آھستہ آھستہ آپ کے علم کی شھرت چاروں طرف پھیل گئی اور دور دور سے دانشمند اور علماء آپ کے پاس آنے لگے۔ یہ وہ چیز تھی جو اس وقت کے عباسی خلیفہ کے لئے بھت سخت اور نا گوار تھی۔ لھذا اس نے چاروں طرف سے امام پر سختیاں کرنا شروع کر دیں حتی کی امام کے صحابی بھی خلیفہ کے ظلم و ستم سے محفوظ نھیں تھے۔ اسی لئے ایک دن امام نے اپنے ایک صحابی ھشام سے فرمایا تھا کہ موجودہ خطروں کے پیش نظر ھم سے متعلق گفتگو سے پرھیز کیا کرو۔ ھشام نے بھی خلیفہ کے مرنے تک امام کے اس حکم کا خیال رکھا تھا۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام علم و تقویٰ میں اپنے والد گرامی کا ھی نمونہ تھے۔ آپ کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ آپ کو جب بھی غصہ آتا تھا آپ غصہ کو پی جاتے تھے۔ اسی لئے آپ کا نام بھی کاظم پڑ گیا تھا۔ کاظم اس شخص کو کھتے ھیں جو غصہ کو پی جایا کرتا ھے۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو حکم دے رکھا تھا کہ اپنے آپسی اختلافات اور جھگڑوں میں حکومتی عدالت میں فیصلے کے لئے نہ جائیں بلکہ اپنے درمیان ھی ایک عدالت قائم کر لیں اور اس میں اپنے جھگڑوں کے فیصلے کیا کریں۔ یہ حکومت وقت کے خلاف ایک طرح کاایک سیاسی قدم تھا۔ امام نے غاصب اور ظالم حاکموں اور خلیفاؤں کے بارے میں فرمایا ھے۔: جو شخص بھی ظالم و جابر حاکم کا ساتھ دیتا ھے، اس کے کاموں سے خوش رھتا ھے وہ بھی اس ظالم حاکم کی ھی مانند ھے یعنی ظالم حاکم کے ساتھ وہ بھی جھنم میں جائے گا۔

اسی طرح امام نے ھارون رشید کی حکومت سے اپنی نفرت اور مخالفت کو ظاھر کیا تھا۔ امام کے نزدیک اس وقت کی حکومت کی کسی بھی طرح حمایت کرنا شرعی طور پر حرام تھا۔ امام اس حکومت سے کسی بھی طرح کی مدد لینے سے بھی منع فرماتے تھے: ان ظالموں پر اعتماد نہ کرو اور ان سے مدد نہ حاصل کرو کہ اگر ایسا کروگے تو دوزخ میں ڈالے جاؤ گے البتہ امام نے اپنے قریبی ساتھیوں میں سے ایک علی بن یقطین کو بعض مصلحتوں کی بنا پر اس حکم سے آزاد رکھا تھا اور اسی لئے وہ ھارون رشید کی حکومت میں وزیر بھی تھے۔

علی بن یقطین سے ھارون رشید کے شاھانہ ٹھاٹ باٹ اور اپنی رعایا کے ساتھ ظلم و ستم نھیں دیکھے جاتے تھے۔ ایک دن وہ امام کی خدمت میں آئے اور ان سے اجازت چاھی کی وہ وزارت سے استعفیٰ دے دیں لیکن امام نے انھیں اس کام سے روک دیا اور فرمایا: ایسا مت کرو! تمھارے بھائی تمھاری وجہ سے عزت کی زندگی گزار رھے ھیں۔ وہ تمھارے اوپر فخر کرتے ھیں ممکن ھے تم ان لوگوں کے لئے کچھ کر سکو۔۔۔

اے علی! تمھارے گناھوں کا کفارہ یھی ھے کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو۔ تم میرے سامنے ایک نیکی پیش کرو میں اس کے بدلے تمھارے سامنے تین نیکیاں پیش کرونگا۔ تم ھمارے کسی ایک شیعہ کی کوئی مشکل دور کرو میں وعدہ کرتا ھوں کہ اس کے بدلے میں تمھیں خلیفہ کی قید و ظلم سے آزاد کرودوں گا۔ اس کی تلوار تم تک نھیں پھونچ سکے گی اور نہ ھی کبھی فقیری و غربت کا شکار ھوگے۔

اے علی ! اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرتا ھے تو در حقیقت پھلے وہ خدا کو اس کے بعد رسول (ص)اور اس کے بعد ھمیں خوش کرتا ھے۔



1