اهداف عزاداري



”ان الامر بالمعروف والنھي عن المنکر سبيل الانبياء،  ومنھاج الصالحين، فريضة عظيمة بھا تقام الفرائض، Ùˆ تاٴمن المذاھب، وحل المکاسب، وترد المظالم وتعمر الارض، وينتصف من الاعداء ويستقيم الامر، فانکروا بقلوبکم، والفظوا بالسنتکم، وصکّوا بھا جباھھم، ولا تخافوا في الله لومة لائم۔۔۔“[4]

” امر بالمعروف اور نھي عن المنکر انبياء (عليھم السلام) کا راستہ اور صالحين کا طريقہ کار ھے، يہ ايسا عظيم فريضہ ھے جس کے ذريعہ دوسرے تمام واجبات برپا هوتے ھيں، ان دو واجبوں کے ذريعہ راستہ پُر امن، درآمد حلال اور ظلم و ستم دور هوتا ھے، ان کے ذريعہ زمين آباد هوتي ھے اور دشمنوں سے انتقام ليا جاتا ھے اور صحيح امور انجام پاتے ھيں، لہٰذا اگر تم کسي برائي کو ديکھو تو (پھلے) اس کا دل سے انکار کرو اور پھر اس انکار کو اپني زبان پر لاؤ ، اور پھر اپنے ھاتھوں سے (برائيوں سے باز نہ آنے والے کے) منھ پر طمانچہ ماردو، اور راہ خدا ميں کسي طرح کي سرزنش اور ملامت سے نہ گھبراؤ“[5]

اسي طرح امام باقر عليہ السلام معاشرہ ميں پھيلتي هوئي برائيوں کے سامنے خاموش رہنے والے افراد کو متنبہ کرتے هوئے فرماتے ھيں:

”اوحي الله تعاليٰ الي شعيب النبي(ع)  إني لمعذب من قومک مائة اٴلف: اربعين اٴلفا من شرارھم، وستين الفاً من خيارھم، فقال يارب ھوٴلاء الاشرار، فما بال الا خيار؟

             ÙØ§ÙˆØ­ÙŠ الله عزّ وجلّ اليہ: اٴنھم داھنوا اھل المعاصي، ولم يغضبو الغضبي“۔[6]

”خداوندعالم نے جناب شعيب نبي عليہ السلام پر وحي نازل کي کہ ميں تمھاري قوم کے ايک لاکھ آدميوں پر عذاب نازل کروں گا، جس ميں چاليس ہزار بُرے لوگ هوں گے، اور ساٹھ ہزار اچھے لوگ، يہ سن کر حضرت شعيب (عليہ السلام) نے خداوندعالم کي بارگاہ ميں عرض کي: بُرے لوگوں کا حال تو معلوم ھيں ليکن اچھے لوگوں کو کس لئے عذاب فرمائے گا؟

خداوندعالم نے دوبارہ وحي نازل فرمائي کہ چونکہ وہ لوگ اھل معصيت اور گناھگاروں کے ساتھ سازش ميں شريک رھے، اور ميرے غضب سے غضبناک نھيں هوئے“۔

يعني برے لوگوں کو برائي کرتے ديکھتے رھے اور ان خدا کے قھر و غضب سے نہ ڈرايا۔

مصائب ميں ضعيف روايات سے اجتناب

امام حسين عليہ السلام اور خاندان عصمت و طھارت کے مصائب پر گريہ کرنا اور آنسوں بھانا بھت عظيم ثواب رکھتا ھے، جيسا کہ متعدد احاديث ميں اس مسئلہ کي طرف اشارہ هوا ، لہٰذا ھميں چاہئے کہ امام حسين اور اھل بيت عليھم السلام کے مصائب پر روئيں اور آنسوں بھائيں، ھمارے ذاکرين کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ رونے اور رلانے کے سلسلہ ميں معتبر مقاتل سے روايات بيان کريں، اور ضعيف روايتوں کے بيان سے اجتناب کريں، کيونکہ يہ بات مسلم ھے کہ ھماري احاديث کے درميان بعض جعلي روايات بھي شامل کردي گئي ھے، يہ ھماري مجبوري ھے، ليکن خداوندعالم نے ھميں عقل جيسي عظيم الشان نعمت سے نوازا ھے، لہٰذا ھميں اپني عقل سے کام لينا چاہئے، مثال کے طور پر جب ھم نے ائمہ معصومين عليھم السلام کو مستحکم دلائل کے ذريعہ معصوم مان ليا اور يہ قاعدہ ثابت کرديا کہ معصوم سے کوئي غلطي اور خطا سرزد نھيں هوسکتي، چاھے وہ نبي هو يا امام، تو پھر اسي کسوٹي پر ھميں روايات کو ديکھنا هوگا، اگر کسي روايت ميں کسي معصوم کي طرف خطا يا غلطي کي نسبت دي گئي ھے تو وہ روايت صحيح نھيں هوسکتي، لہٰذا درايت کو روايت پر قربان نھيں کيا جاسکتا۔

جيسا کہ بعض ذاکرين بيان کرتے ھيں کہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپني آخري عمر ميں لوگوں کو جمع کرکے کھا کہ جس کسي کا مجھ پر کوئي حق هو وہ آئے اور اپنا حق لے لے، چنانچہ مجمع سے ايک شخص نے کھا: يا رسول اللہ! ايک مرتبہ جنگ ميں آپ نے کوڑا هوا ميں لھرايا ليکن وہ مجھے لگ گيا، ميں اس کا بدلہ لينا چاھتا هوں، تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے کھا: آؤ اور مجھ سے بدلہ لے لو، وہ شخص اٹھا اور آپ کے پاس آيا اور رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپني پيٹھ حاضر کردي، اس نے کھا: يا رسول اللہ! جس وقت ميري پيٹھ پر کوڑا لگا تھا تو اس وقت ميري پيٹھ برہنہ تھي، چنانچہ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپني قميص نکال دي، ليکن وہ شخص کوڑا مارنے کے بجائے آپ کي پيٹھ کا بوسہ لينے لگا۔۔۔۔۔



back 1 2 3 next