انقلاب حسيني کے اثرات وبرکات



محمداشرف

حق کي فتح ہوئي اور باطل نابود ہوگيا اور بے شک باطل زوال پذير اور ختم ہو جانے والا ہے۔ يہ سنت الہي ہے جو مخلوقات کے درميان جاري ہے اور سنت الہي ميں تبديلي کاکوئي امکان ہي نہيں ہے۔

کربلاميں دو جماعتيں ايک دوسرے کے خلاف برسرپيکار ہوئيں۔ ايک حق کي جماعت تھي اور دوسري باطل کي۔ ايک جماعت الہي اہداف کوعملي جامہ پہنانے آئي تھي اوردوسري جماعت شيطاني مقاصد کو پورا کرنے۔ ايک طرف نوع انساني کانجات کا ضامن تھا اوراس کي تباہي وبربادي کاذريعہ! کچھ لوگ حق کاپرچم لہرانے آئے تھے اور کچھ لوگ باطل کاعلم گاڑنے! ايک گروہ مظلوموں اورمستضعفين کے حقوق کا محافظ تھا اور دوسرا گروہ حق انساني کي پائمالي کاعلمبردار!

يہ جنگ جسموں اورظاہري انسانوں کے درميان نہيں تھي بلکہ يہ جنگ اہداف و نظريات کي جنگ تھي۔ يہي وجہ ہے کہ يزيدمات کھاگيا اورحسين کامياب وکامران ہوگئے حسين شہيدہوگئے اورظاہري طورپراس دنياسے چلے گئے ليکن سيدالشہداء اورآپ کے انصار و اعوان کي مظلومانہ شہادت نے پورے اسلامي معاشرے ميں بيداري کي لہر پيداکردي، اسلامي رکوں ميں تازہ خون گردش کرنے لگا، مظلوموں اور ستمديدہ لوگوں پرچھايا ہوا سکوت توڑديا، ظالموں اورجابروں کے خلاف آوازيں بلندہوئيں، لوگوں کے ذہنوں کوبدل ڈالااوران کے سامنے حقيقي اورخالص اسلام کا تصورپيش کيا۔ يہ تصادم اوريہ جنگ اگرچہ ظاہري طورپرايک ہي دن ميں تمام ہواليکن طول تاريخ ميں ہميشہ اس کے آثاروبرکات ظاہرہوتے گئے اورجوں جوں تاريخ آگے بڑھتي گئي اس کے نتائج سامنے آتے گئے اہل حرم کي اسيري ہي سے اس کے سياسي اثرات لوگوں پرآشکارہوگئے، جب اسراء کو”شام“ کي طرف لے جاياجارہاتھا تو”تکريت“ پہونچنے پروہاں کے مسيحي،اپنے کليساؤں ميں جمع ہوئے اورغم ومصيبت کابينڈ بجانا شروع کرديا اوريزيدي فوجوں کو اس جگہ پرداخل ہونے کي اجازت نہ دي۔ جب شہر”لينا“ پہونچے تو اس شہرکے لوگ جمع ہوگئے اور امام حسين اور ان کے انصار و اعوان پر درود و سلام اور امويوں پر لعنت بھيجنے لگے اور يزيدي فوجوں کو وہاں سے باہرنکال ديا،جب يزيدي فوجوں کوپتہ چلا کہ شہر”جہينہ“ کے لوک بھي فوجوں سے لڑنے کو تيارہوئے ہيں تو فورا وہاں سے فرار کر گئے۔ جب قلعہ ”کفرظاب“پہونچے تو وہاں کے لوگوں نے بھي شہرکے اندرآنے سے انہيں روک ديا اورجب ”حمص“ پہونچے تو وہاں کے لوگوں نے يزيد اور يزيدي لشکرکے خلاف زبردست مظاہرے کئے اوريہ نعرے لگائے کہ ”اکفرابعدايمان وضلالابعدہدي“ يعني کياہم ايمان کے بعدکفراورہدايت کے بعدگمراہي اختيار کريں صرف يہي نہيں بلکہ ان سے متصادم بھي ہوئے اوربہت سوں کوواصل جہنم بھي کيا۔ (فرہنگ عاشورا،ص۲۴۱)۔

عاشوراکے اثرات :

عاشوراکے واقعہ نے انقلاب برپاکرديا، غفلت کي نيندميں پڑے ہوئے لاپرواہ لوگوں کوبيدارکرديا، مردہ ضميرانسانوں کوزندہ کرديا،مظلوميت اورانسانيت کي فرياد بلندکردي اور پوري دنيائے انسانيت کومتاثرکرديا۔ ان بے شمار آثارميں سے چندايک ملاحظہ ہوں:

۱۔ بعض لوگوں کے افکار پر بني اميہ کاجوديني اثر و رسوخ تھا وہ محو ہوگيا۔ کيونکہ نواسہ رسول خدا کي مظلومانہ شہادت نے ابني اميہ کي حکومت کوبے اساس اور جہالت پرمبني، ثابت کرديا اور ان کے ظلم وستم کو اسلامي معاشرے ميں فاش کرديا جس پرہزاروں طرح کے فريب اوردھوکے بازي کے پردے پڑے ہوئے تھے۔

۲۔ مسلم معاشرے کو شرمساري گناہکاري کااحساس دلايا۔ کيونکہ حق حقيقت کي نصرت نہيں کي اورنہ ہي اپنے وظيفے کوانجام ديا۔ اسلام کي حفاظت ہرمسلمان پر واجب اوراسلامي تعليمات کي نشرواشاعت اور ان کانفاذ ہرمسلمان کا وظيفہ ہے۔ امام حسين نے اپنے وظيفہ پرعمل کرکے ہميشہ کے لئے مسلمانوں کو اپني ذمہ داري کا احساس دلايا۔

۳۔ ظلم وجورکے خلاف آوازبلندکرنے اوراس کامقابلہ کرنے کے لئے ہرطرح کے خوف وہراس اوررعب ودہشت کوختم کرديا،جواس وقت مسلمانوں اوراسلامي معاشرے پرطاري تھا۔ اورمسلمانوں مجاہدوں کے اندرجرات،شہامت،دليري اوربہادري کاجذبہ پيداکرديا۔

۴۔ دنياکے سامنے يزيديوں اوراموي حکومت کوذليل ورسواکرديااوران کي اسلام دشمني کوواضح کرديا۔

۵۔ انقلابي اوراصلاحي جنگوں کي حوصلہ افزائي اوران کي پشت پناہي کي اور لوگوں کو آزادي اور آزادگي کا درس ديا۔

۶۔ ايک نئے انساني اوراخلاقي مکتب کي بنياد ڈالي جوانسانيت کي پاسداري اوراخلاقي قدروں کي پاسباني کاضامن ہے۔



1 2 next