انقلاب حسيني کے اثرات وبرکات



۷۔ متعددمقامات پرمختلف ظالم حکومتوں کے خلاف نئے نئے انقلاب برپاکئے جہاں لوگوں نے حماسئہ کربلاسے درس ليتے ہوئے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرديا اور اپنے اسلامي مذہبي حقوق کو واپس لينے کے لئے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

۸۔ طول تاريخ کي تمام آزادي اور انقلابي تحريکيں عاشورا کي مرہون منت ہيں، جہاں سے ابھوں نے مقاومت،مجاہدت،شہامت،شجاعت اورشہادت کاتکا تصورلے کراپني فتح کي ضمانت کردي۔

۹۔ کربلااورعاشورا،مسلمان انقلابي نسلوں کے لئے،عشق وايمان اور جہاد و شہادت کي ايک يونيورسٹي بن گيا۔

عاشوراکے برکات و ثمرات:

۱۔ اسلام کي فتح ہوئي اورمٹنے سے محفوظ رہا،کيونکہ منصب الہي پرغاصب خود ساختہ اميرالمومنين يزيدنے اپنے شيطاني کرتوتوں سے اسلام کے نام پراسلام کو اتنا مشتبہ کردياتھا کہ حقيقي اسلام کي شناخت مشکل ہوگئي تھي، قماربازي، شراب خواري، نشے کا استعمال، کتوں سے کھيل کود، رقص اورعيش ونوش کي محفلوں کا انعقاد، غيراسلامي شعائر کي ترويج اوراشاعت، رعاياپرظلم وجور،حقوق انساني کي پائمالي،لوگوں کي ناموس کي بے حرمتي وغيرہ جيسے بعض ايسے نمونہ ہيں کہ يزيد نے حاکم اسلامي کے عنوان سے اپناروزمرہ کامعمول بنارکھاتھا،اورلوگ اسي کواسلام سمجھتے تھے امام حسين نے اپنے قيام کے ذريعہ حقيقي اسلام کويزيدي اسلام سے الگ کرکے پہچنوايااورديناپريہ واضح کردياکہ”يزيد“ اسلام کے لباس ميں سب سے بڑي ”اسلام دشمن“ طاقت ہے۔

۲۔ اہل بيت اطہارکي شناخت اس امت کے مثالي رہبر کے عنوان سے ہوئي، پيغمبر اسلام کے بعداگرچہ مسلمانوں کي تعداد کئي گنازيادہ بڑھ گئي تھي ليکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نامناسب قيادت اورغيرصالح نام نہاد رہبري کي وجہ سے مسلمان اصل اسلام سے دورہوتے گئے مفادپرست حاکموں نے اپنے ذاتي منافع کے تحفظ کي خاطرحلال محمدکوحرام اورحرام محمدکوحلال قراردے ديااوراسلام ميں بدعتوں کاسلسلہ شروع کرديا،تاريخ گواہ ہے کہ صرف پچيس سال رحلت پيغمبراکرم کوگذرے تھے کہ جب حضرت علي نے مسجدنبوي ميں ۳۵ہجري ميں نمازپڑھائي تولوگ تعجب سے کہنے لگے کہ آج ايسے لگا،خودپيغمبرکے پيچھے نمازپڑھي ہو، ليکن ۶۱ھ ميں اب نمازکاتصورہي ختم ہوگياتھاايسے ميں پيغمبراکرم کے حقيقي جانشين نے ميدان کربلاميں تيروں، تلواروں اور نيزوں کي بارش ميں، تيروں کے مصلے پرقائم کرکے اپني صالح رہبري اور اسلام دوستي کاثبوت دے ديااوريہ واضح کردياکہ اسلام کاحقيقي وارث ہروقت اور ہر آن اسلام کي حفاظت کے لئے ہرطرح کي قرباني دے سکتاہے۔

۳۔ امامت کي مرکزيت پرشيعوں کااعتقادمستحکم ہوگيادشمنوں کے پروپيگنڈوں اورغلط تبليغاتي يلغارنے بعض شيعوں کے اعتقادات پرغيرمستقيم طورپرگہرا اثر ڈال رکھاتھا حتي کہ بعض لوگ امام کومشورے دے رہے تھے کہ آپ ايساکريں اورايسانہ کريں بعض لوگوں کي نظرميں امامت کي اہميت کم ہوگئي تھي۔ امام حسين کے مصلحانہ قيام نے ثابت کردياکہ قوم کي رہبري کااگرکوئي مستحق ہے تووقت کاامام ہے اور بطوراحسن جانتاہے کہ کس وقت کونسا اقدام کرے اورکس طرح سے اسلام اصيل کومٹنے سے بچائے۔

۴۔ لوگوں کو آگاہ رکھنے کے لئے منبروعظ جيسااطلاع رساني کاايک عظيم اور وسيع نظام قائم ہوا۔مجالس عزاداري کي صورت ميں ہرجگہ اور ہر آن ايک ايسي ميڈيا سيل وجود ميں آگئي جس نے ہميشہ دشمنوں کي طرف سے ہونے والي مختلف سازشوں، پروپيگنڈوں اورثقافتي يلغارسے آگاہ رکھااورساتھ ساتھ حق وصداقت کاپيغام بھي لوگوں تک پہونچتارہا۔

۵۔ عاشورا،ظلم،ظالم،باطل اوريزيديت کے خلاف انقلاب کاآغازتھا۔ امام حسين نے يزيدسے صاف صاف کہہ دياتھا کہ ”مثلي لايبايع مثلہ“ مجھ جيساتجھ جيسے کي بيعت نہيں کرسکتا،يعني جب بھي يزيديت سراٹھائے گي توحسينيت اس کے مقابلے ميں ڈٹ جائے گي جب بھي يزيديت اسلام کوچيلنج کرے گي توحسينيت اسلام کوسربلندرکھے گي اوريزيديت کونابودکرے گي يہي وجہ ہے کہ عاشوراکے بعد مختلف ظالم حکمرانوں کے خلاف متعددانقلاب رونماہوئے اورباطل کے خلاف رونماہونے والے کامياب ترين انقلاب ميں ايران کااسلامي انقلاب ہے جس نے ڈھائي ہزارسالہ آمريت کوجڑسے اکھاڑپھينکا اور اس باقي رکھنے کي سفارشات کيں۔ اوريہ عزاداري گريہ وزاري، رونا اور رلانا، مجالس، ذکرمصيبت، مرثيہ، نوحہ وغيرہ کي شکل ميں پيش کي جاتي ہے،اوريہي عزاداري ہے کہ جس کي بناء پرآج تک دين اسلام زندہ اورباقي ہے۔

انقلاب کے عظيم رہبرامام خميني نے صاف صاف فرماياکہ ”ہمارے پاس جوکچھ ہے سب اسي محرم اورصفرکي وجہ سے ہے لہذايہ اسلامي انقلاب، عاشوراکاايک بہترين اورواضح ترين ثمرہ ہے جووقت کے يزيدوں کے لئے ايک بہت بڑاچيلنچ بن گياہے جس کومٹانے کے لئے اس وقت پوري دنيامتحدہوگئي ہے۔

ليکن ہماراعقيدہ ہے کہ يہ انقلاب حضرت قائم (عج) کے انقلاب کامقدمہ ہے اوريہ انقلاب ،انقلاب مہدي(عج) سے متصل ہوکررہے گاانشاء اللہ۔



back 1 2