خداوندعالم کو کيوں درک نهيں کيا جاسکتا؟



اس کی کنہِ ذات تک عقل نھیں پھنچ سکتی ھیں جس طرح خس و خاشاک سمندر کی تہ تک نھیں پھنچ سکتے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے حدیث نقل ھوئی ھے:

”إذا انتھیٰ الکلام إلیٰ الله فامسکوا“[3]

” جس وقت بات خدا تک پھنچ جائے تو اس وقت خاموش ھوجاؤ“

یعنی حقیقت خدا کے بارے میں گفتگو نہ کرو، کیونکہ اس کے سلسلہ میں عقلیں حیران رہ جاتی ھیں اور کسی مقام پر نھیں پھنچ سکتیں، اس کی لامحدود ذات کے بارے میں محدود عقلوںکے ذریعہ سوچنا ناممکن ھے، کیونکہ جو چیز بھی عقل و فکر کے دائرہ میں آجائے وہ محدود ھوتی ھے اور خداوندعالم کا محدود ھونا محال ھے۔[4]

یاواضح الفاظ میں یوں کھا جائے کہ جس وقت ھم اس دنیا کی عجیب و غریب چیزوں اور ان کی ظرافت و عظمت کے بارے میں غور و فکر کرتے ھیں یا خود اپنے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ھیں تو اجمالی طور پر یہ معلوم ھوجاتا ھے کہ ان تمام چیزوں کا کوئی پیدا کرنے والاھے، جبکہ یہ وھی علمِ اجمالی ھے جس پر انسان خدا کی معرفت اور اس کی شناخت کے آخری مرحلہ میں پھنچتا ھے، (لیکن انسان جس قدر اسرار کائنات سے آگاہ ھوتا جاتا ھے اور اس کی عظمت واضح ھوتی جاتی ھے تو اس کی وہ اجمالی معرفت قوی تر ھوتی جاتی ھے) لیکن جب ھم خود اپنے سے یہ سوال کرتے ھیں کہ وہ کون ھے؟ اور کس طرح ھے؟ اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف ھاتھ پھیلاتے ھیں تو حیرت و پریشانی کے علاوہ کچھ حاصل نھیں ھوتا، یھی وہ بات ھے جس کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ اس کی شناخت کا راستہ مکمل طور پر کھلا ھوا ھے حالانکہ مکمل طور پر بند بھی ھے۔

اس مسئلہ کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا جاسکتا ھے اور وہ یہ ھے کہ یہ بات ھم اچھی طرح جانتے ھیں کہ قوتِ جاذبہ کا وجود ھے اور اس کا ثبوت یہ ھے کہ اگر کسی چیز کو چھوڑتے ھیں تو وہ گرجاتی ھے اور زمین کی طرف آتی ھے ، اور اگر یہ قوتِ جاذبہ نہ ھوتی تو روئے زمین پر بسنے والے کسی موجود کو چین و سکون نہ ملتا،لیکن اس قوہٴ جاذبہ کے بارے میں علم ھونا کوئی ایسی بات نھیں جو دانشوروں سے مخصوص ھو ، بلکہ چھوٹے بچے بھی اس بات کو اچھی طرح جانتے ھیں البتہ قوتِ جاذبہ کی حقیقت کیا ھے؟ کیا دکھائی نہ دینے والی لھریںھیں ، یا نامعلوم ذرات یا دوسری کوئی طاقت؟ یہ ایک مشکل مرحلہ ھے ۔

اور تعجب کی بات یہ ھے کہ یہ قوتِ جاذبہ ،مادی دنیا میں معلوم شدہ چیز کے برخلاف، ظاھراً کسی چیز کو دوسری جگہ پھنچانے میں کسی زمانہ اور وقت کی محتاج نھیں ھے، نور کے برخلاف جو کہ مادی دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتار ھے ، لیکن کبھی اس نور کوایک جگہ سے دوسری جگہ پھنچنے کے لئے لاکھوں سال درکار ھوتے ھیں، جبکہ قوتِ جاذبہ اسے دنیا کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ میں لمحہ بھر میں منتقل کردیتی ھے، یا کم سے کم ھم نے جو سرعت و رفتار سنی ھے اس سے کھیں زیادہ اس کی رفتار ھوتی ھے۔

یہ کونسی طاقت Ú¾Û’ جس Ú©Û’ آثار ایسے(عجیب Ùˆ غریب) ھیں؟ اس Ú©ÛŒ حقیقت کیا Ú¾Û’ØŸ کوئی شخص بھی اس کا واضح جواب نھیں دیتا، جب اس ”قوتِ جاذبہ  “ (جو ایک مخلوق Ú¾Û’) Ú©Û’ بارے میں ھمارا علم صرف اجمالی پھلو رکھتا Ú¾Û’ اور اس Ú©Û’ بارے میں تفصیلی علم نھیں Ú¾Û’ØŒ تو پھر کس طرح اس ذات اقدس Ú©ÛŒ کُنہ (حقیقت) سے باخبر ھوسکتے ھیں جو اس دنیا اور ماورائے طبیعت کا خالق Ú¾Û’ جس کا وجود لامتناھی Ú¾Û’ØŒ لیکن بھر حال Ú¾Ù… اس Ú©Ùˆ ھر جگہ پر حاضر Ùˆ ناظر مانتے ھیں اور کسی بھی ایسی جگہ کا تصور نھیں کرتے جھاں اس کا وجود نہ Ú¾ÙˆÛ”

با صد ہزار جلوہ برون آمدی کہ منبا صد ہزاردیدہ  تماشا کنم تو را [5]

” تولاکھوں جلووںکے ساتھ جلوہ افروز ھے تاکہ میں لاکھوںآنکھوں کے ذریعہ تیرا دیدار کروں“۔

 

 


[1] اگر آپ حضرات تعجب نہ کریں تو ھم ”لامتناھی“ (لامحدود) مفھوم کا تصور ھی نھیں کرسکتے ،لہٰذا کس طرح لفظ ”لامتناھی“ کو استعمال کیا جاتا ھے؟ اور اس کے سلسلہ میں خبر دی جاتی ھے اور اس کے احکام کے بارے میں گفتگو ھوتی ھے ، تو کیا بغیر تصور کے تصدیق ممکن ھے؟

جواب :  لفظ ”لامتناھی“ دو لفظوں سے مل کر بنا Ú¾Û’ ”لا“ جو کہ عدم اور نہ Ú©Û’ معنی میں Ú¾Û’ اور ”متناھی“ جو کہ محدود Ú©Û’ معنی میں Ú¾Û’ØŒ یعنی ان دونوں Ú©Ùˆ الگ الگ تصور کیا جاسکتا Ú¾Û’ØŒ (نہ ØŒ محدود) اس Ú©Û’ بعد دونوں Ú©Ùˆ مرکب کردیا گیا، اور اس Ú©Û’ ذریعہ ایسے وجودکی طرف اشارہ کیا گیاھے جس کا تصور نھیں کیا جاسکتا، اور اس پر (صرف) علم اجمالی حاصل ھوتا Ú¾Û’ Û” (غور کیجئے)

[2] پیام قرآن ، جلد ۴، ص۳۳۔

[3] تفسیر ”علی بن ابراھیم “ نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۷۰ کی نقل کے مطابق۔

[4] تفسیر نمونہ ، جلد ۲۲، صفحہ ۵۵۸۔

[5] پیام امام (شرح نہج البلاغہ)، جلد اول، صفحہ ۹۱۔



back 1 2