بعثت سے غدير تک



مسٹر ڈیون پورٹ اپنی کتاب ” اپالو جی فرام محمد(ص) اینڈ دی قرآن “ میں لکھتے ہیں:

محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم )نے مخالفین کی مخالفت سے خائف نہ ہوکر دو بارہ پھر اپنے قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا اور ان کی بے تکلفانہ دعوت کے بعد اٹھ کر اپنی پر جوش تقریر اس درخواست پر ختم کی کہ تم میں کون شخص اس بار گراں کے برداشت کرنے میں میری رفاقت کرے گا اور میرا نائب و وزیر ہوگا؟ جیسا کہ موسیٰ (ع) کے وزیر ہارون تھے ۔ یہ سن کر کل مجمع تعجب انگیز سکوت میں آگیا۔

اور کسی کو اس خطرناک عہد وزارت کے قبول کرنے کی جراٴت نہ ہوئی لیکن نوجوان علی (ع) نے اٹھ کر اور للکار کر کہا کہ اے نبی خدا! میں آپ کی وزارت کو بسر و چشم حاضر ہوں ۔ یہ سن کر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے اپنے کام کا اس طرح آغاز کرکے عام طور سے مکے میں وعظ و پند شروع کیا اور یوما فیوما اپنے معتقدین کی تعداد بڑھاتے گئے“

مسٹر واشنگٹن ارونگ اپنی کتاب ” محمد اینڈ ہز سکسیر “ میں لکھتے ہیں:

”محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے بنی ہاشم کی ایک جماعت کو مدعو کرکے جمع کیا اور بعد ضیافت اٹھ کر باآواز بلند فریایا:

اے بنی عبد المطلب جس خدا نے تم کو بہترین نعمتیں عطا کی ہیں اسی کی جانب سے میں دنیا کی برکتیں اور آئندہ کی بہتری لایا ہوں ۔ پس تم میں سے کون شخص میرا بھائی اور میرا جانشین اور میرا وزیر ہوگا۔ یہ سن کر سب ساکت رہے بعض تعجب کرتے تھے اور بعض بے اعتقادی سے ہنستے تھے ۔ آخر کار علی (ع) نے اپنی جوانانہ دلیری کے ساتھ عرض کیا کہ میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں ۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے اپنا ہاتھ علی (ع) کی گردن میں ڈالا اور ان کو اپنے سینے سے لگایا اور با آواز بلند فرمایا کہ میرے بھائی ( علی (ع) ) میرے وزیر میرے جانشین کو دیکھو اور ان کی بات سن کر ان کی پیروی کرو ۔ نوجوان علی (ع) کی جراٴت پر قریشیوں نے ایک حقارت آمیز قہقہ لگایا اور اس کمسن خلیفہ کے باپ حضرت ابو طالب (ع) کو اس اپنے بیٹے کے آگے جھکنے اور ان کی فرمابرداری کرنے پر ملامت کرنے لگے“

روایات صحیحہ میں یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت (ص) نے الفاظ ” وصیی و خلیفتی “ کے ساتھ ساتھ جو ” اخی“ کا لفظ ارشاد فرمایا ہے اس سے رشتہ بھائی کے ساتھ ساتھ ہمنشیں اور شریک منزلت مراد ہے ۔

چنانچہ کتاب المناقب ابو الخیر مغازلی الجلالی اور کتاب المناقب میں امام احمد ابن حنبل سے مروی ہے اس میں حذیفہ یمانی سے روایت ہے کہ آنحضرت (ص) نے مہاجرین اور انصار کے ما بین مشابہت کے پیش نظر بھائی چارگی قائم کی پھر علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ یہ میرا بھائی ہے ۔ حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول بے نظیر اور علی (ع) ان کے بھائی ہیں۔

وصی کی تشریح کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ دہلوی” تفہیمات الٰہیہ“ میں تحریر کرتے ہیں :یعنی ہر نبی کے لئے وصی ہونا ضروری ہے اور وصایت کی حقیقت ہمارے نزدیک حکمت الاقرب ملکوت ہے اور تحمل ہے شرع نبی اور علوم نبی کا اور تکفل ہے امت نبی کا دعا کے ساتھ نیز منصب وصی کہ یہ ہے کہ امت نبی کے علم کا خزینہ دار اور اس کا وحی کا حامل ہو۔

امام نسائی خصائص میں لکھتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں جاتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو مدینہ منورہ میں اپنا خلیفہ بنایا اور امیر المومنین علیہ السلام کے پوچھنے پر کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنا کر جا رہے ہیں حضرت کا یہ جواب دینا۔ تم کو اس منصب پر خوش ہونا چاہئے کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ (ع) سے تھی ۔
اس نسبت کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ” فتح الباری شرح صحیح بخاری“ میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ یہ اتصال نبوت کے جہت سے تو نہیں ہو سکتا اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم المرسلین ہیں البتہ خلافت کے جہت سے ہے اور یہی ہمارا مطلوب ہے ۔

کفایة الطالب محمد بن یوسف الگنجی الشافعی میں ہے کہ ” حاکم کہتے ہیں کہ جناب ہارون امت جناب موسیٰ (ع) میں سب سے افضل تھے ۔ اس لئے لازم آتا ہے کہ جناب امیر المومنین (ع) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں سب سے افصل و برتر ہیں۔

چنانچہ” وفیات الاعیان“ ابن خلقان میں ہے : کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج آخر سے فراغت کے بعد میدان غدیر خم میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ ” علی (ع) کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ (ع) سے تھی“



back 1 2