غدير کے پس منظر ميں بمارے فرائض



امام خمینی

آج عید غدیر ہے جو مذہبی اعیاد میں سے سے بڑی عید ہے ۔یہ عید محروموں کی عید ہے ۔یہ عید مظلوموں کی عید ہے ۔یہ عید ایسی عید ہے کہ جس دن خدائے تبارک و تعالیٰ نے رسول السلام کے ذریعہ الٰہی مقاصد کے اجراءاور راہ انبیاءکے استمرار کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا لیکن افسوس کہ جب حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں آئی تو خائن ہاتھوں اور بے سبب جنگ کے شعلے بھڑکانے والوں نے اس عظیم شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر نہ ہونے دیا جب کہ آپ کی شخصیت ایک ایسی پر اسرار شخصیت ہے کہ جس کے پہلو قابل شمار نہیں ہے۔

فی الحال میں آپ کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اجاگر نہیں کر سکتا لیکن یہ تذکرہ صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ وہ افراد جن کی معلومات وسیع ہیں اور وہ معارف اسلامی سے آگاہ ہیں ان کے لئے فکر کا راستہ کھل جائے اور وہ صحیح طور پر اس عظیم شخصیت کی زندگی کو آئینہ بنا کر موجودہ صورت حال کا جائزہ لے سکیں۔

حضرت علی علیہ السلام اسمائے الٰہیہ کے مظہر ہیں اور آپ کی شخصیت میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے مخفی پہلو آپ کے نمایاں پہلوئوں سے کہیں زیادہ ہیں حتیٰ آپ کی زندگی کا وہ پہلو بھی جس تک بشر پہنچ سکا ہے یا پہنچے گا مکمل طور پر قابل فہم نہیں ہے آپ کی زندگی کا ایک پہلو دوسرے پہلو سے متضاد نظر آتا ہے ۔انسان سوچنے پر مجبور ہے کہ ایک انسان جو زہد کے عظیم ترین مقام پر فائز ہو وہ کیوں کر عظیم تر ین جنگجو بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ عام انسانوں میں دیکھنے میں آتا ہے جو جنگجو ہوتا ہے وہ زاہد نہیں ہوتا ۔ جب کہ آپ کے زہد کا عالم یہ تھا کہ خوراک و غیرہ کے معاملے میں بھی کمترین چیز پہ اکتفا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کے بازوئوں میں قوت و طاقت تھی ۔
آپ کو مختلف علوم پر اس قدردسترس تھی کہ ہر شعبے کا ماہر انسان آپ کو اپنے ہی شعبہ سےوابستہ سمجھتا ہے ۔ فقہاءآپ کو اپنا ہم صف قرار دیتے ہیں اور جو دوسرےفنون میں ماہر ہیں وہ آپ کو اپنے فن سے متعلق بتاتے ہیں جبکہ آپ کی ذات وہ ذات ہے جو تمام اوصاف و کمالات کی حامل ہے اور آپ کو کسی ایک شعبے سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔

میں کبھی سوچتا ہوں کہ کس شباہت کی بنا پر ہم اپنے بارے میں اس ع ´ظیم شخصیت کے شیعہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اگر مفکر ین، اہل قلم اور صاحب نظر افراد حضرت علی علیہ السلام کے روحانی اور مادی پہلوئوں کے علاوہ دوسرے تمام زندگی سے وابستہ امور کا جائزہ لیں جو کہ ابتدائی عمر سے بستر شہادت تک آپ کی شخصیت میں موجود رہے ہیں تو کیا ہم تب بھی اپنے بارے میں آپ کے شیعہ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ؟

در حقیقت اگر ہم اپنی حالت پر حقیقت پسندی سے غور کریں تو ہم اپنے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے درمیان ایک بھی شباہت پیدا نہیں کر سکتے۔
حضرت علی علیہالسلام خدا کی عبادت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔(۱

 ØºÙ„اموں Ú©ÛŒ طرح ڈر ڈر کر عبادت Û”(Û²) بہشت Ú©ÛŒ لالچ میں عبادت (Û³) خدا Ú©ÛŒ محبت Ú©ÛŒ بنا پر عبادت Û”

اور پھر تینوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلی والی عبادت غلاموں کی ہے دوسری عبادت تاجروں کی ہے اور تیسری عبادت خدا سے محبت رکھنے والوں کی عبادت ہے ۔

اب آپ یہ بتایئے کہ اگر آپ سے یہ وعدہ کر لیا جائے کہ آپ میں سے کوئی بھی دوزخ نہیں جائے گا اور سب کے سب بہشت میں جائیں گے تو بھی کیا آپ خدا کی عبادت کریں گے ؟

اگر آپ سے کہا جائے کہ تم پر دوزخ کے دروازے بند ہیں لیکن میری محبت کی خاطر عبادت کرو تو کیا آپ اپنی ذات میں ایسی محبت پاتے ہیں جو آپ کو عبادت پر مائل کر سکے ؟

جہاں نہ خوف ہو نہ امید ہو اور نہ ہی کوئی دوسری نفسانی جہت ،میں عرض کر چکا ہوں اس طرح کے دعوے تو بہت ہو سکتے ہیں لیکن عمل مشکل ہے ۔اس لئے کہ ہمارے اندر اگر کہیں محبت ہے تو وہ جب نفس ہے ہم ابھی تک نفسانی مدارج سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے ہیں حتیٰ وہ پہلا قدم بھی نہیں بڑھا سکے ہیں جسے اہل سلوک لفظ ” یقظہ“ یعنی بیداری کہتے ہیں ہم ابھی تک بھی ظاہر ی دنیا کے حجاب میں گرفتار ہیں اور شاید آخر ت تک بھی گرفتارہی رہیں مگر یہ کہ خدا وند عالم کی خاص عنایات ہمارے شامل حال ہو جائیں ۔



1