حضرت خدیجہ تاریخ کے آئینہ میں



اسلام کی راہ میں شھید ھونے والے پھلے افراد ابوعمار اورام عمار ھیں ۔

ان روایات سے کاملاًردھوتی ھےکہ یہ شخص جسکو حضرت خدیجہ کے بیٹے کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر مرقوم کردیاگیاھے اسلام کی راہ میں قربان ھونے والاپھلاشھید تھا،لھذامعلوم نھیںھے کہ اس شخص کاوجود خارجی تھا بھی یانھیںچہ جائیکہ حضرت خدیجہ کافرزند ھوناپائے ثبوت کوپھنچے۔

Û´)،روایات سے معلوم ھوتاھے کہ حضرت خدیجہ Ú©ÛŒ ایک بھن تھیں جن کانام ’ھالۂتھااس ھالہ Ú©ÛŒ شادی ایک فخروی شخص Ú©Û’ ساتھ ھوئی  جس سے ایک بیٹی پیداھوئی جس کانام ”ھالھ“تھا،پھراس ھالہ اولی (خواھرخدیجہ  (ع))سے ایک بنی تمیم سے تعلق رکھنے والے شخص Ù†Û’ شادی کرلی جوابوھند Ú©Û’ نام سے معروف ھے۔اس تمیمی سے ھالہ Ú©Û’ ایک بیٹاپیداھوا جس کانام ھند تھااوراس شخص ابوھند تمیمی(شوھر خواھرخدیجہ  )Ú©ÛŒ ایک اور بیوی تھی جسکی دوبیٹیاں تھیں ’رقیۂاور”زینب“کچہ عرصے Ú©Û’ بعد ابو ھند Ú©ÛŒ Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ بیوی جورقیہ اورزینب Ú©ÛŒ ماں تھی فوت ھوگئی اورپھر کچہ Ú¾ÛŒ مدت Ú©Û’ بعد ”ابوھند “بھی دنیاسے رخصت ھوگیااوراس کابیٹا”ھند “جوھالہ سے تھا اوردوبیٹیاں جو اس Ú©ÛŒ Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ بیوی سے تھیں جن کا نام تاریخ ،رقیہ اورزینب ذکر کرتی Ú¾Û’ ”خدیجہ “کی بھن Ú©Û’ پاس باقی رہ گئے جن میں سے ھند اپنے باپ Ú©ÛŒ موت Ú©Û’ بعد اپنی قوم بنی تمیم سے ملحق ھوگیااور”ھالہ “(حضرت خدیجہ Ú©ÛŒ بھن )اوراس Ú©Û’ شوھرکی دونوں بیٹیاں حضرت خدیجہ Ú©Û’ زیر کفالت آگئے ،اور آنحضرت سے آپ Ú©ÛŒ شادی Ú©Û’ بعد بھی آپ Ú¾ÛŒ Ú©Û’ ساتھ رھیں اورآپ Ú¾ÛŒ Ú©Û’ گھر میں دیکھاگیاتھا اس لئے عرب خیال کرنے Ù„Ú¯Û’ کہ یہ خدیجہ Ú¾ÛŒ Ú©ÛŒ بیٹیاں ھیں اورپھر ان کوحضرت سے منسوب کردیاگیا لیکن حقیقت امریہ تھی کہ رقیہ اورزینب حضرت خدیجہ Ú©ÛŒ بھن ”ھالہ “کے شوھر Ú©ÛŒ بیٹیاں تھیں۔ (الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/۲ص/Û±Û²Û¶)

مذکورہ بالادلائل Ú©ÛŒ روشنی میںیہ بات پائے ثبوت Ú©Ùˆ Ù¾Ú¾Ù†Ú†ÛŒ Ú¾Û’ کہ حضرت خدیجہ رسول Ú©Û’ حبالئہ عقد میں آنے سے قبل غیر شادی شدہ تھیں  اورآپ Ú©Û’ شوھروں اورفرزندوں Ú©Û’ نام جوتاریخ میں نظر آتے ھیں یاتوکسی غلط فھمی کانتیجہ ھیں یاسیاست Ú©Û’ ھاتھوں عظمت رسول Ú©Ùˆ Ú©Ù… کرنےکی ایک ناکام کوشش ،مذکورہ دلائل Ú©Û’ علاوہ بھی حلّی اورنقضی جوابات دئے گئے ھیں جو تاریخ Ú©ÛŒ اس حقیقت سے پردہ اٹھانے والے ھیں لیکن یہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اورروایات کامتحمل نھیںھوسکتاھے،آپ Ú©ÛŒ اولاد میں حضرت فاطمہ زھرا Ú©Û’ علاوہ کوئی فرزند زندہ نھیں رھا۔

رسول کی بعثت اورحضرت خدیجہ کاایمان لانا

حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ مبعوث بہ رسالت ھونے Ú©Û’ بعد عورتوں میں جس شخصیت Ù†Û’ سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ آپ Ú©ÛŒ تصدیق Ú©ÛŒ اورآپ پر ایمان لائی وہ حضرت خدیجہ Ú©ÛŒ ذات گرامی Ú¾Û’ (Û³Û°)طبری Ù†Û’ واقدی سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ ”اجتمع اصحابنا علی  ان اول اھل القبلة استجاب لرسول الله خدیجہ بنت خویلد (Û³Û±)علماء کااس بات پر اتفاق Ú¾Û’ کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ آواز پر سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ لبیک Ú©Ú¾Ù†Û’ والی حضرت خدیجہ Ú©ÛŒ ذات گرامی Ú¾Û’ )خود رسول اکرم صلی یللہ ع لیہ وآلہ وسلم کا ارشاد Ú¾Û’ ”والله لقد امنت بی اذ کفر الناس واویتنی اذ رفضنی الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس (Û³Û²)خداکی قسم وہ (خدیجہ )مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس Ù†Û’ مجھے اس وقت پناہ دی جب لوگوں Ù†Û’ مجھے ترک کردیاتھااوراس Ù†Û’ ایسے موقع پر میری تصدیق Ú©ÛŒ جب لوگ مجھے جھٹلارھے تھے)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :۔لم یجمع بیت واحد یومئیذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ واناثالثھا (۳۳)وہ ایسا وقت تھاجب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور میں ان میںکی تیسری فرد تھا )ابن اثیر کابیان ھے :۔اول امراء ةتزوجھا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمین لم یتقد مھاوجل ولاامراء ة“(۳۴)حضرت خدیجہ پھلی خاتون ھیں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کیااوراس امر پر بھی مسلمانوں کا اجماع ھے کہ آپ سے پھلے نہ کوئی مرد ایمان لایا اورنہ کسی عورت نے اسلام قبول کیا)۔

آنحضرت کی حضرت خدیجہ(ع) سے محبت وعقیدت

حضرت خدیجہ کی آنحضرت کی نگاہ میں محبت و عقیدت اورقدرومنزلت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاھے کہ آپکی زندگی میں آنحضرت نے کسی بھی خاتون کو اپنی شریک حیات بناناگوارہ نھیں کیا(۳۵)آپ کے بارے میں حضرت کاارشاد ھےکہ ”خدیجہ اس امت کی بھترین عورتوں میںسے ایک ھے

(۳۶)آپ کی وفات کے بعد بھی ھمیشہ آپ کو یاد فرماتے رھے (۳۷)عائشہ کابیان ھے کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ سے اتناحسد نھیںھواجتناخدیجہ سے ھواحالانکہ خدیجہ کی وفات مجھ سے قبل ھوچکی تھی اوراس حسد کاسبب یہ تھاکہ آنحضرت آپ کاتذکرہ بھت زیادہ فرماتے تھے(۳۸)چنانچہ یھی سبب ھے کہ دوسر ی جگہ عائشہ سے روایت نقل ھوئی ھے کہ ”ایک روز رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خدیجہ کی تعریف فرمارھے تھے مجھے حسد پیداھوااورمیں نے عرض کی یارسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچہ بھی نھیں تھی جو مرگئی اورخدانے آپ کواس سے بھتر عطا کردی ھے (عائشہ کااشارہ اپنی طرف تھا)رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم یہ سن کرناراض ھوگئے(۳۹)اورغضب کے عالم میں فرمایا”لاوالله ماابد لنی اللھ خیر امنھااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی بھالھااذحرمنی الناس ورزقنی منھاالله ولدادون غیرھامن النساء“(۴۰)خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بھتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلارھے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ھر چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نھیں کیارسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کی حضرت خدیجہ کیلئے محبت اورعقیدت واحترام کااندازہ ھوتاھے ۔خدیجہ کااسلام کیلئے اپنااورسب کچہ قربان کرکے بھی اسلام کی نشرواشاعت کاجذبہ ھی تھاجس نے اسلام کودنیاکے گوشہ وکنار تک پھنچنے کے مواقع فراھم کئے اوریھی سبب تھاکہ ”حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کی بشارت دیدی تھی “عائشہ سے مسلم نے روایت نقل کی ھے کہ ”بشر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم بنت خویلد ببیت فی الجنة “(حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہ سلام الله علیھاکو جنت کی بشارت دی تھی )(۴۱)حضرت خدیجہ اور ابوطالب رسول کے دو ایسے مدافع تھے جنکی زندگی میں کفار قریش کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نھیں پھنچا لیکن رسول کے یہ دونوں جانثار ایک ھی سال بھت مختصر وقفہ سے یکے بعد دیگرے دنیاسے رخصت ھوگئے اورروایات کے مطابق رسول پر دونوں مصیبتیں ھجرت سے تین سال قبل اورشعب ابی طالب سے باھر آنے کے کچہ روز بعد واقع ھوئیں (۴۲)رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا(۴۳)اوریہ مصیبت رسول کیلئے اتنی سخت تھی کہ رسول خانہ نشین ھوگئے اورآپ نے حضرت خدیجہ اورابوطالب کی وفات کے بعد باھر نکلنابھت کم کردیاتھا(۴۴)ایک روز کسی کافر نے آپ کے سر پر خاک ڈال دی رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھر میں داخل ھوئے آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے”مانالت منی قریش شیا اکرھہ حتی مات ابوطالب“(۴۵) قریش ابوطالب کی زندگی میں مجھکوکوئی گزند نھیں پھنچا سکے)آپ حضرت ابوطالب اورخدیجہ کی زندگی میں اطمینان سے تبلیغ میں مصروف رھتے تھے ۔خدیجہ گھر کی چھار دیواری میں اور ابوطالب مکہ کی گلیوں میں آپ کے مدافع تھے

حضرت خدیجہ جب تک زندہ رھیں رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان وسکون کا سبب بنی رھیں دن بھر کی تبلیغ کے بعد تھک کر چور اورکفار کی ایذارسانیوں سے شکستہ دل ھوجانے والارسول جب بجھے ھوئے دل اورپژمردہ چھرے کے ساتھ گھر میں قدم رکھتاتو خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ھوئے چھرے کوپھر سے ماہ تمام بنادیاکرتی تھی ،خدیجہ کی محبتوں کے زیر سایہ کشتی اسلام کاناخدا عالمین کیلئے رحمت بنکر دنیاکی ایذارسانیوں کو بھلاکر ایک نئے جوش و جذبے اورولولے کے ساتھ ڈوبتے ھوئے ستاروں کاالوداعی سلام اورمشرق سے سرابھارتے ھوئے سورج سے خراج لیتاھواایک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے باھر آتا اورباطل کو لرزہ براندام کرنے والی لاالہ الاالله کی بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے درودیوارھل کررہ جاتے کفارجمع ھوتے رسول پر اذیتوں کی یلغار کردیتے لیکن انسانیت کی نجات اورانسانوں کی اصلاح کاخواب دل میں سجائے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خوشاآیند مستقبل کے تصور میں ھر مصیبت کاخندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رھے اورآپ کے اسی صبر وتحمل اورآپ کی پاکدامن زوجہ کے تعاون اورجانثاری سے آج ھم مسلمانان جھان پرچم توحید کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کوشرمندہ تعبیر کرنے کے لئے آپ کے اس آخری جانشین کے انتظار میںسرگرداں ھیں جوزمین کوعدل وانصاف سے پر کردیگا ۔

حوالے

۱۔ صحیح مسلم /۴۴/۷۶/۲۴۳۵، ترمذی کتاب مناقب حدیث /۳۹۰۱، کنز العمال ح/ ۱۳/ص/۶۹۳
۲۔ اسد الغابہ ج/۵ ص / ۴۳۸ ، مسلم فضائل صحابہ / ۳۴۳۷ ، البدایہ و النھایہ ج/ ۳ ص / ۱۵۸
۳۔ بحار ج/ ۱۶ ص/ ۱۲ ، اسد الغابہ ج/ ۵ ص / ۴۳۹
۴۔ طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص /۸۸
۵۔سیرة ھشام ج/ Û´ ص / Û²Û¸Û± ØŒ  الاصابہ ج / Û´ ص / ۲۸۱،طبری ج / Û³ ص / Û³Û³
۶۔البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۶۲
۷۔ سیرة حلیہ ج / ۱ ص / ۱۳۱ ، طبقات ابن سعد ج/ ۱ ص / ۸۶ ، حیات النبی و سیرتہ ج / ۱ ص / ۶۰
۸۔ سیرة ھشام ج/ ۱ ص / ۲۵۹
۹۔ البدایہ و النھایہ ج/ ۲ ص / ۳۶۲ ، سیرة ھشام ج / ۱ ص / ۳۳۸
۱۰۔ بحار ج / ۱۶ ص / ۲۲
۱۱۔ البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۲۵۸
۱۲۔ البدء و التاریخ ج / ۲ ص / ۴۷
۱۳۔ تاریخ یعقوبی ج / ۱ ص / ۳۷۶
۱۴۔ بدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، طبری ج / ۲ ص / ۲۰۴
۱۵۔ الکامل فی التاریخ ج/ ۱ ص / ۴۷۲ ، دلائل النبوة ج / ۲ ص / ۶۶
۱۶۔ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص / ۱۳۵ ، البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۵۸ ، الکامل فی التاریخ ج / ۱ ص / ۴۷۲
۱۷۔ السیرة النبویہ (دحلان ) ج / ۱ ص/ ۹۲
۱۸۔بدایہ والنھایہ ج/ ۲ ص / ۳۵۸، بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲
۱۹۔بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲
۲۰۔ سیرة حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰ ، طبری ج/ ۲ ص / ۲۰۵
Û²Û±Û”  الصحیح من سیرة النبی ج / Û² ص / Û±Û±Û² Û”Û±Û±Û³ ØŒ بحار الانوار ج / Û±Û¶ ص / Û±Û´
۲۲۔سیرہ ھشام ج / ۱ ص ۲۲۷
۲۳۔البدایہ و النھایہ ج / ۲ ص / ۳۶۰ ، البدء و التاریخ ج/ ۲ ص / ۴۸
۲۴۔سیرہ حلبیہ ج / ۱ ص /۱۴۰، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ ۲ ص / ۱۱۵
۲۵۔فروغ ابدیت ج/ ۱ ص / ۱۹۸
Û²Û¶Û”  سیرہ حلبیہ ج / Û± ص/ Û±Û´Û°
۲۷۔ طبری ج / ۳ ص / ۳۶
۲۸۔مناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۰۶ ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج / ۲ ص / ۱۲۲
۲۹۔مناقب آل ابیطالب ج / ۱ ص / ۲۶
Û³Û°Û”  الاصابہ ج / Û± ص / Û²Û¹Û³
۳۱۔ الاصابہ ج / ۴ص /۳۳۵ ، اسد الغابہ ج / ۵ ص / ۴۸۱ ، حیاة النبی ج /۱ ص / ۱۲۱
Û³Û²Û”  الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ Û² ص Û±Û²Ûµ

 



back 1 2