دوسري صدي هجري کے دوران شيعوں کي حالت



آل بويہ کے بادشاہ مذھبي طور پرشيعہ تھے اور خلافت کے مرکز(دارالخلافہ ) بغداد اور خليفہ کے دربار ميں ان کا بھتاثر و رسوخ تھاـ (3)يہ شيعوں کے لئے ايک قابل توجہطاقت تھي جو دن بدن ان کو زيادہ سے زيادہ جراٴت مند اور طاقتور بنارھي تھي تاکہ وہاپنے مذھبي مخالفوں کے سامنے جو ھميشہ خلافت کي طاقت پر بھروسہ اور تکيہ رکھتے ھوئےان کو نيچا دکھانے کي فکر ميں تھے ، کھڑے ھوجائيں اوران کا مقابلہ کريں اوراس کےساتھ ساتھ پوري آزادي کے ساتھ اپنے (شيعہ ) مذھب کي تبليغ کريں ـ

جيسا کہ مورخين Ù†Û’ لکھا Ú¾Û’ کہ اسصدي Ú©Û’ دوران سارے جزيرة العرب يا اس Ú©Û’ زيادہ حصے ميں بڑے بڑے شھروں Ú©Û’ علاوہھرطرف شيعہ آباد تھے ليکن ان Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ بڑے شھربھي مثلا Ù‹ ھجر ØŒ عمان او رصعدہوغيرہ شيعوں Ú©Û’ شھر شمار ھوتے تھے ØŒ شھر بصرہ ميں شيعوں Ú©ÙŠ قابل قدرتعداد موجود تھيحالانکہ وہ شھر ھميشہ سے اھلسنت کا مرکز تھا اور شھر کوفہ Ú©Û’ ساتھ جو شيعوں کا مرکزسمجھا جاتا تھا مذھبي رقابت اور برابري رکھتا تھا ـاسي طرح دوسرے شھروں مثلا Ù‹ ابلس، نابلس ØŒ طبريہ ØŒ حلب اور ھرات ميں بھي اچھے خاصے شيعہ زندگي گزارتے تھےـ اھواز ،خليج فارس  Ú©Û’ کنارے (ايراني ساحل )پر بھي شيعوں Ú©ÙŠ تعداد قابل ملاحظہ تھي Ù€ (4)

اسي صدي کے آغاز ميں ناصراطروشجوکئي سال تک ايران کے شمالي حصوں ميں مذھب شيعہ کي تبليغ کرتارھا تھا طبرستان کےعلاقے پربھي قابض ھوگيا تھا اور وھاں اس نے سلطنت کي داغ بيل ڈالي تھي جو کئي پشتوںتک جاري رھي ، اطروش سے پھلے بھي ايک شخص بنام حسن بن زيد علوي نے کئي سال تکطبرستان ميں حکومت کي تھي ـ (5)

اس صدي کے دوران فاطميوں نےجواسماعيلي فرقے سے تعلق رکھتے تھے مصر ميں اقتدار حکومت سنبھال ليا اور296ھ سے 527ھ تک حکومت کرتے رھے ـ

اسي زمانے ميں عام طور پر ايسےحالات پيش آتے رھے کہ بڑے بڑے اسلامي شھروں مثلا ً بغداد ، بصرہ او رنيشاپور ميںشيعہ ـسني فرقوں کے درميان کبھي کبھي کشمکش اور جنگ شروع ھوجاتي تھي اوران جنگوںميں سے بعض ميں شيعوں کوکاميابي ھوتي تھي ـ

پانچويں صديھجري سے نويں صدي ھجري کے دوران شيعوں کي حالت

پانچويں صدي ھجري سے نويں صدي ھجريتک شيعوں کي تعداد ميں مسلسل خاطر خواہ اضافہ ھوتارھا جيسا کہ چوتھي صدي ھجري کےدوران بھي ان کي افزائش جاري رھي اس دوران بعض ايسے بادشاھوں نے بھي حکومت کي جوشيعہ تھے اور مذھب شيعہ کو رواج ديتے تھے ـ

پانچويں صدي ھجري کے آخر ميںاسماعيليہ کي تحريک او ردعوت نے ”الموت “ کے علاقوں ميں اپني حکومت کو مضبوط کرلياتھا اور اس طرح اسماعيلي فرقہ کے بادشاہ تقريبا ً ڈيڑھ صدي تک ايران کے بالکلدرمياني حصے ميں مکمل آزادي کے ساتھ اپني مذھبي رسومات کے مطابق زندگي گزارتے رھے (6) ـمرعشي سادات نے بھي کئيسالوں تک مازندران کے علاقوں پرحکومت کي تھي ـ (7)

مغلوں کے ايک بادشاہ خدابندہ لونےمذھب شيعہ اختيار کرليا تھا اور اس کي اولاد ميں سے بھي بھت سے بادشاھوں نے ايرانميں حکومت کي تھي اور چونکہ يہ سب لوگ شيعہ تھے اسلئے وہ سب مذھب شيعہ کي ترويجاورترقي کے لئے کوشاں رھے تھے ـ اسي طرح آق قو يونلو اور قرہ قويونلو خاندان کےسلاطين جو تبريز ميں حکومت کيا کرتے تھے (8)اوران کي حکمراني اور بادشاھت کي وسعت فارس (شيراز ) اور کرمان تک پھنچ چکي تھي ، مذھبشيعہ کے پيرو تھے ـ مصر ميں بھي سالھا سال تک فاطميوں کي حکومت قائم رھي تھيـ

البتہ مذھبي طاقت مختلف بادشاھوںکے زمانے ميں مختلف رھي ھے جيسا کہ فاطمي حکومت کے خاتمے اورسلاطين آل ايوب کےاقتدار سنبھالنے سے حالات بالکل پھرگئے تھے ـ مصر اور شام کے شيعوں کي آزادي چھنگئي تھي اور بھت سے شيعہ افرادکو قتل کرديا گياتھا ـ (9)

انھي شھيد ھونے والوں ميں سے شھيداول محمد بن محمدمکي بھي تھے جو شيعہ فقہ کے ذھين ترين افراد ميں سے تھے اور786ھ ميں دمشق ميں مذھب شيعہ رکھنے کے جرم ميں شھيد کردئے گئے تھے (10) اور اسي طرح شيخ اشراق شھابالدين سھروردي کو حلب ميںفلسفہ کے جرم ميں شھيد کردياگيا تھا ـ (11)

مجموعي اور کلي طور پر ان پانچصديوں ميں شيعہ آبادي کے لحاظ سے مسلسل بڑھتے رھے اور طاقت اور آزادي کے لحاظ سےاپنے وقت کے بادشاھوں کي مرضي يا مخالفت کے ماتحت رھے ـ اس تمام مدت اور عرصے ميںاسلامي ممالک ميں سے ايک ملک ميں بھي مذھب شيعہ کو سرکاري اور ملکي مذھب ھونے کاموقع نہ ملا اورنہ ھي کسي نے اس کااعلان کيا يا اسے سرکاري مذھب کے طور پر تسليمکياـ

دسويں اورگيارھويں صدي ھجري کے دوران شيعوں کي حالت

906ھ ميں شيخ صفي الدين اردبيلي (متوفي735ھ )کے خاندان ميں سے ايک تيرہ سالہ نوجوان نے جو مذھب کے لحاظ سے شيعہ تھا ،اپنےآباء واجداد کے تين سو مريدوں اور درويشوں کو ساتھ لے کر حکومت وقت کے خلاف سراٹھايا تاکہ ايک مستقل ، خود مختار اور آزاد شيعہ رياست کومعرض وجود ميں لائےـ اسکے لئے وہ اردبيل،ايران سے اٹھا اورکشور کشائي کرتے ھوئے طوائف الملوکي کوايران سےختم کرديا ـ اس نے علاقائي بادشاھوں اور خصوصا ً آل عثمان خاندان کے بادشاھوں کےساتھ خونريزجنگيں کيں ـ يھاں تک کہ ايران کو جو اس وقت حصوں بخروں ميں تقسيم ھوچکاتھا ، ايک متحدہ اورآزاد ملک بنا ديا اورمذھب شيعہ کو اپني حکومت اورقلمرو ميںسرکاري مذھب کا درجہ دے کر رواج ديا ـ شاہ اسماعيل صفوي کي وفات کے بعد صفوي خاندانکے دوسرے بادشاھوں نے بارھويںصدي ھجري تک ايران ميں اپني حکومت جاري رکھي اور سب نےيکے بعد ديگرے شيعہ اماميہ مذھب کوسرکاري مذھب کے طور پرتصديق اور تسليم کيا اور اسکو مضبوط بنانے کے لئے کسي کوشش اور جد وجھد حتيٰ جنگو ں سے بھي دريغ نہ کيا ـ يھاںتک کہ يہ خاندان جب اپنے عروج پر تھا (يعني شاہ عباس صفوي کے زمانے ميں ) اس نےملکي آبادي اور وسعت کو موجودہ ايران سے دوگنا کردياتھا ـ

بارھويں صديھجري سے پند رھويں صدي ھجري کے دوران شيعوں کي حالت

آخري تين صديوں کے دوران شيعوں کيمذھبي ترقي اپني سابقہ حالت اور شکل ميں جاري رھي ھے اوراب جبکہ پندرھويں صديکاپھلا حصہ ختم ھورھا ھے، مذھب شيعہ ايران ميں سرکاري اور عوامي مذھب کے طور پرپھچانا جاتا ھے اور اسي طر ح دوسرے بھت سے اسلامي ممالک مثلا ً يمن ، عراق وغيرہميں شيعوں کي اکثريت ھے ـ اس کے علاوہ تمام اسلامي ممالک ميں بھي کم و بيش شيعہافراد زندگي گزاررھے ھيں ـ مجموعي طور پر دنيا کے مختلف ممالک اور علاقوں ميں شيعہآبادي تقريبا ً دس کروڑ نفوس پر مشتمل ھے ـ

حوالہ



1ـ مختلف التواريخ
2ـ تاريخ ابي الفداء اور دوسري تاريخي کتابيں
3ـ کتب تواريخ کي طرف رجوع کريں
4ـ الحضارة الاسلاميہ ج / 1 ص / 97
5ـ مروج الذہب ج / 4 ص / 373 ، الملل و النحل ج / 1 ص / 254
6ـ تاريخ کامل ، تاريخ روضة الصفا اور تاريخ حبيب السير کي طرف رجوع کريں
7ـ تاريخ کامل اور تاريخ ابي الفداء ج / 3
8ـ تاريخ حبيب السير
9ـ تاريخ حبيب السير اور تاريخ ابي الفداء وغيرہ
10ـ روضات الجنات اور رياض العلماء ( نقل از ريحانة الادب ج/ 2 ص / 365
11ـ روضات الجنات ، کتاب المجالس اور وفيات الاعيان



back 1 2