تقوی ٰ



فصل اول

 

تقوی کے معنی

تقوی کے معنی یہ ہیں کہ خدا وند عالم نے انسان پر جن امور کو فرض کیا ہے انسان انھیں انجام دے یعنی واجبات کو ادا کرے اور محرمات سے پرہیز کرے ۔ یہ تقوی کا پہلا مرتبہ ہے ۔تقوی ایک ایسی صفت ہے کہ اگر کسی قوم کے دل میں گھر کر لے تو اس صورت میں وہ قوم اس مضبوط قلعے کی مانند ہو جاتی ہے جس میں کوئی داخل نہیں ہو سکتا ۔

عام طور پر جب تقوی کا تصور ذہن میں آتا ہے تو ساتھ ساتھ نماز ، روزہ ، عبادت ، دعا وغیرہ کی تصویر بھی ابھر آتی ہے ۔ صحیح ہے کہ یہ تمام مذکورہ امور تقوی کے دائرے میں آتے ہیں لیکن انہی کوتقوی سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ تقوی یعنی اپنے امور کی نگہداری کرنا یعنی اگر انسان کوئی فعل انجام دے رہا ہو تو جانتا ہو کہ کیا کر رہا ہے ۔ اگر کسی فعل کو انجام دے تو اپنے ارادے ، فکر اور حسن انتخاب سے انجام دے ۔ بالکل اس طرح جس طرح کوئی گھوڑ سوار گھوڑے پر سواری کرتے وقت اپنی منزل اور مقصد سے آگاہ ہوتا ہے ۔

تقوی کیا ہے اور اس کو زندگی کے مختلف گوشوں میں کس طرح رچایا ۔ بسایا جا سکتا ہے ؟ تقوی سے مراد یہ ہے کہ گناہ ، خطا ، صراط مستقیم سے انحراف ، ھوی و ہوس سے اجتناب کیا جائے اور خدا کی طرف سے عائد شدہ احکام پر عمل پیرا رہا جائے ۔ زندگی کے تمام مختلف شعبوں میں اسی وقت کامیاب اور سرفراز ہو اجا سکتا ہے جب باتقوی زندگی گذاری جائے۔ تقوی ہر کامیابی کا راستہ اور ضمانت ہے ۔ تقوی فقط دین سے مربوط نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ دینی تقوی ، واضح اور روشن ہے ۔

اس بچے سے لے کر جو ابھی تحصیل علم کر رہا ہے ، اس خاتون تک جو امور خانہ داری انجام دے رہی ہے ، سبھی کو باتقوی ہونا چاہیے تاکہ سب راہ مستقیم اختیار کر سکیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں ۔ ایک نوجوان اپنے آس پاس کے مخصوص ماحول اور معاشرے میں تقوی کے بغیر اپنے تحصیل علم کے ہدف تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ۔ اس نوجوان کو چاہیے کہ غلطیوں اور ھوی و ہوس اور ان تمام سرگرمیوں سے اجتناب کرے جو اس کو اس کے ہدف تک پہنچنے سے روکتی ہوں ۔ یہی اس کا تقوی ہے ۔ اس طرح گمراہی میں ڈوبے ہوئے ایک عورت اور گھر کے باہر ایک مرد پر بھی یہی کلیہ اور قانون جاری ہے ۔

ایک مومن اگر چاہتا ہے کہ راہ خدا اور صراط مستقیم کا سفر طے کرے تو اس کے لئے لازم ہے کہ تقوی اختیار کرے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ خوشنودی خدا اور نورانیت الہی سے مستفید ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ معنویت کے اعلی مراحل بھی طے کر سکتا ہے نیز دین خدا کی سر براہی تک رسائی بھی حاصل کر سکتا ہے ۔

متقین کی عاقبت

” اتقوا الله “ قرآن کریم کا حکم ہے ۔ یہی وہ تقوی ہے جس کے ذریعے تمام امور تک دسترسی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اگر قرآن کریم کے اس مذکورہ حکم پر غور کیا جائے تو تمام عقلی استدلال اور براہین کو عام فہم زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے حتی مسائل غیبی اور ماورائے فطرت و طبیعت امور کو بھی عوام کے لئے واضح کیا جا سکتا ہے ۔

تقوی کا ماحصل یہ ہے کہ کوئی بھی شخص یا معاشرہ اگر تقوی اختیار کر لے تو پھر کسی بھی میدان میں داخل ہو جانے پر اس میدان کو سر کر لے گا ۔ ” والعاقبة للمتقین “۔ اس عظیم تاریخی اور کائناتی سفر کا سر انجام متقین پر ہونے والا ہے ۔ دنیا و آخرت دونوں متقین سے متعلق ہیں ۔ امام خمینی  اگر متقی نہ ہوتے تو کسی بھی قیمت پر اپنی شخصیت کو ہزارہا دوسرے افراد کے لئے محور قرار نہیں دے سکتے تھے اور نہ ہی انقلاب لا سکتے تھے ۔ یہ تقوی ہی تھا جس نے انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید بنا دیا ہے ۔

تقوی ،زندگی کے تمام شعبوں میں موثر

تقوی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زندگی کے تمام شعبوں میں موثر ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں بارہا تقوی سے متعلق تذکرہ ہوا ہے ۔ یہ سب اس لئے نہیں ہے کہ انسان اس دنیا سے چلا جائے تو خدا وند عالم اجر و ثواب عنایت کرے گا ، بلکہ تقوی اس دنیا کے لئے نعمت شمار کیا گیا ہے ۔ اگر ہماری موجودہ زندگی کا انجام بخیر و خوبی ہو گیا تو اس پر ہماری آخرت کا بھی انحصار ہے ۔ تقوی کا نہ ہونا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان غفلت اور کوتاہی کا شکار ہو جائے اور یہ غفلت و کوتاہی انسان کو اوندھے منہ زمین پر پٹخ دیتی ہے ۔

تقوی کے ذریعے انسان کی صراط مستقیم پر بقاء

حضرت علی فرماتے ہیں ” اوصیکم عباد الله بتقوی الله “ اے بندگان خدا ! میں تمہیں تقوائے الہی کی وصیت کرتا ہوں۔ ” و اغتنام طاعتہ “ اور وصیت کرتا ہوں کہ اطاعت خدا کو غنیمت شمار کرو ۔ ” ما استطعتم “ جس حد تک کہ تمہارے اندر قدرت و توانائی ہو ۔ ” فی ھذہ الایام الخالیة الفانیة “ اس جلدی گزرنے والی فانی دنیا میں جتنا ممکن ہو اطاعت خدا کرو ۔ ” و اعداد العمل الصالح الجلیل یشفی بہ علیکم الموت “ اور عمل صالح کے ذریعہ ان تمام مشکلات و مصائب کا سد باب کرو کہ جنھیں موت تمہارے اوپر طاری کردے گی ۔

موت کی سختیوں اور مشکلات کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اولیائے خدا اور بزرگان دین موت سے مقابلے کے خوف سے لرزہ بر اندام ہو جاتے تھے ۔ موت کے بعد عالم برزخ کے حوادث علماء اور اولیاء کہ جو کسی حد تک ان حوادث و مصائب کی سختیوں کا آشنا ہوتے ہیں کو لرزا کر رکھ دیتے تھے ۔ ان مشکلات اور سختیوں سے مقابلے کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے عمل صالح ۔ ” و امر کم بالرفض لھذہ الدنیا التارکة لکم “ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اس دنیا کی رنگینیاں اور آتی جاتی خوشیاں جو تمہیں ایک دن چھوڑ جائیں گی ،کو ابھی سے خیر بار کہہ دو ۔ حد سے بڑھ کر مادیات دنیا کی طرف مت بھاگو کیونکہ ” الزائلة عنکم “ یہ سب چلی جانے والی ہیں ۔ ” و ان لم تکونوا تحبون ترکھا “ در حالیکہ تم نہیں چاہتے کہ یہ مال اور عیش و عشرت تمہیں چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے حالانکہ یہ ہو کر رہے گا ۔ ” والمبیلة لاجسادکم و ان احببتم تجدیدھا “ یہ دنیا تمہارے جسموں کو خاک میں ملا کر نیست و نابود کر دے گی اگر چہ تم یہی چاہتے ہو کہ دوبارہ زندہ ہو جائیں ۔ ” فانما مثلکم کرکب سلکوا سبیلاً فکانھم قد قطعوا و افضوا الی علم فکانھم قد بلغوہ “ تم ایک راستہ پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھے جا رہے ہو کہ تمہیں دور کسی ایک نشانے تک پہنچنا ہے لیکن تم اس نشانے کو ابھی واضح اور روشن طور پر نہیں دیکھ پا رہے ہو ۔ ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ جب تم خواہ نخواہ اس تک پہنچ جاوٴ گے ۔ یہ راستہ ، یہی فانی دنیا ہے ۔ اور وہ نشانہ اور منزل وہی موت اور اجل ہے جس کو آنا ہی آنا ہے ” فلا تنافسوا فی عز الدنیا و فخرھا “ اس دنیا کی ظاہری عزت اور جاہ و جلال کے لئے ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور جھگڑا نہ کرو ۔” ولا تجزعوا من ضراعھا و بوٴوسھا “ دنیا کی ان مختصر سی سختیوں وار پریشانیوں سے تھکان اور خستگی محسوس نہ کرو ۔ ” فان عز الدنیا و فخرھا الی انقطاع “ دنیا کی عزت اور فخر و حشمت ختم ہو جانے والا ہے ۔ ” و ان زینتھا و نعیمھا الیارتجاع “ زیبائی و خوبصورتی اور یہ نعمتیں گذر جانے والی ہیں ۔ یہ جوانی ، حسن اور خوبصورتی بڑھاپے اور بد صورتی میں تبدیل ہو جائیں گی ۔ ” و ان ضراعھا و بوٴسھا الی نفاذ “ اور یہ سختیاں اور پریشانیاں بھی ختم ہو جائیں گی ۔ ” و کل مد ة منھا الی منتھا “ اس کائنات کا یہ زمان و مکان روبہ زوال اور ختم ہو جانے والا ہے ۔ ” و کل حی فنیھا الی بلی “ تمام جانداران موت کی آغوش میں سو جانے والے ہیں ۔



1