تقوی ٰ



یہ جملے اس ذات با برکت کی زبان مبارک سے جاری ہوئے ہیں جس کانام علی ہے۔ وہی علی جو اپنے ہاتھوں سے کھیتی کرتے تھے اور کنویں کھودتے تھے ۔ یہ جملے اس وقت کے ہیں جب آپ حکومت فرما رہے تھے ۔ دنیا کے ایک بڑے حصے پر آپ کی حکومت تھی ۔ آپ نے جنگیں بھی لڑی ہیں ، صلح بھی کی ہے ، سیاست بھی کی ہے ، بیت المال بھی آپ کی نگرانی میں تقسیم ہوتا تھا ۔ ان سب کے باوجود بھی آپ متقی تھے ۔ لہذا تقوی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا سے قطع تعلق کردیا جائے ۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو تمام دنیاوی اور مادی امور کا محور قرار نہ دے ، اپنی خاطر اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو صرف نہ کر ے ، اپنی زندگی کے لئے دنیا کو جہنم نہ بنا ئے، مال ، عیش و عشرت اور آرام و سکون کی خاطر دوسرے ہزارہا افراد کی زندگیوں کا سودا نہ کر ے ۔

تقوی یعنی یہ کہ اپنی ذات سے صادر ہونے والے تمام امور پر سخت نظر رکھی جائے ۔ کوئی بھی قدم اٹھایا یا فیصلہ لیا جائے تو یہ خیال مد نظر رہے کہ کہیں اس سے خود یا دوسرے افراد یا معاشرے کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا ہے ۔ یا میں بھی خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ۔ تقوی کے ذریعے دنیاوی عزت کے ساتھ ساتھ امور دنیا سے متعلق علم بھی خدا وند عالم کی جانب سے عنایت کر دیا جاتا ہے ۔ با تقوی معاشرہ کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ ایسے معاشرے کی فضا سالم ، محبت آمیز اور حسد و نفاق و تعصاب سے پاک ہوتی ہے ۔

تقوی تمام برکات کا سر چشمہ

اگر کوئی فرد یا قوم با تقوی ہو جائے تو تمام خیروبرکات دنیا و آخرت اس فرد یا قوم کا خاصہ ہو جائیں گی ۔ تقوی کا ماحصل فقط یہ نہیں ہے کہ رضائے خدا حاصل کر لی جائے یا جنت کا دروازہ اپنے اوپر کھول لیا جائے بلکہ تقوی کا فائدہ اس دنیا میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔با تقوی معاشرہ اس دن

تقوی کے ذریعے ہی قدرت خدا کاحصول

ایمان، تقوی اور عمل صالح اس بات کی ضمانت ہیں کہ تمام قدرت خدا ، نعمات الہی اور ساری کائنات پر دسترسی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ دشمن کسی بھی میدان سے ، کسی بھی صورت میں حملہ کر دے ، ایک با تقوی قوم کا بال بھی بیکانہیں کر سکتا ۔ خدا وند عالم نے بڑے سادہ الفاظ میں اس گفتگو کا ما حصل صرف ایک آیت میں بیان فرمایا ہے: ” و لا تھنوا “ سستی نہ کرو ۔ ” و لا تحزنوا “ غمگین مت ہو ۔ ” و انتم الاعلون ان کنتم موٴمنین “ تم کو برتری حاصل ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر تم مومن ہو ۔ دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا : ” و لا تھنوا و تدعوا الی السلم “ یعنی سستی نہ کرو اور نہ ہی دشمن کی سازشانہ دعوت کو قبول کرو ۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد اگرجمہوری اسلامی پر ایک غائرانہ نظر ڈالی جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ جن جن شعبہ ہائے حیات میں اقدار اسلامی کی حفاظت کی گئی ہے وہاں وہاں رشد و ترقی ہوئی ہے اور جن جن شعبو ں میں اسلامی احکام و اقدار و اخلاق اسلامی سے چشم پوشی کی گئی ہے ان ان شعبوں میں پسماندگی آج بھی موجود ہے ۔

دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ جہاں جہاں معنویت ، انسانیت اور الہی اقدار سے منہ موڑ لیا گیا ہے وہاں وہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ زندگی کس قدر دشوار ہے ، کس قدر نا امنی اور بے چینی ہے ۔ ایسے معاشروں میں قتل و غارت گری اور دہشت گردی زیادہ ہے ۔ ہر چند یہ لوگ ان اجتماعی مشکلات و مسائل کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کسی بھی طرح اصلی اور حقیقی علت اور سبب کو تلاش نہیں کر سکے ہیں ۔ ایک ماں اپنے بچے کو قتل کر دیتی ہے ، فوراً ہی لوگوں کا وجدان تڑپ اٹھتا ہے ، صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں کہ ایسی ماں کو سولی پر چڑھا دیا جائے ۔ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ ان کی بنیاد خراب ہو چکی ہے ۔ ان معاشروں کی بد بختی یہ ہے کہ یہ خدا ، معنویت اور اخلاق سے پشت پھیر کر فساد و قتل و غارت گری کے عادی ہو گئے ہیں ۔

مادی اور مالی فساد کسی بھی قیمت پر خوشحالی کا ضامن نہیں بن سکتا۔ جس کی واضح مثال امریکہ ہے۔ ہر چند کہ امریکہ میں زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں ہمہ جہت ترقی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی عوام جن اخلاقی اور معنوی مشکلات کا شکار ہیں ان سے ساری دنیا واقف ہے ۔ انھیں اخلاقی اور معنوی اقدار کی قلت کی بنا پر امریکہ موجودہ صورت حال سے دوچار ہے ۔ وہ صورت حال کہ جس میں ایک ماں اپنی تسکین شہوت اور ذاتی مفاد کی خاطر اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کا قتل کر دیتی ہے ۔

بوسنیا اور ہرزیگوونیا میں کیا نہیں ہوا ؟ مغلوں کے انداز میں افواج ” سر بریسٹیا “ میں گھس کر وحشیانہ انداز میں قتل و غارت گری کرتی رہیں اور نام نہاد متمدن اقوام و ملل کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ اس پر ستم یہ کہ یہی لوگ حقوق بشر کے علمبردار ہونے کا دعوی کرتے ہیں ! کیا ایک شہر میں ہزاروں معصوم مرد ، عورت اور بچوں کا وحشیانہ قتل عام حقوق بشر کی خلاف ورزی نہیں ہے ؟ جمہوری اسلامی اخلاق اور اسلامی احکام و شریعت کی محافظت کی بنا پر آج ساری دنیا میں ایک باعزت مقام حاصل کر سکا ہے ۔ آج جب کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ، دنیا کے دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم سے اپنی غلامی کرانا اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہیں ، ایران ایک مستقل اور آزاد ملک کی حیثیت سے آزاد زندگی گذار رہا ہے ۔ کسی کی اتنی مجال نہیں ہے کہ ایران سے غیر عادلانہ طور پر ایک حرف یا ایک کلمہ کو قبول کرا لے ۔ یہ سب فقط اور فقط اسلام اور اسلامی اخلاق و معنویات اور اسلامی احکامات اور شریعت کی برکتیں ہیں اور بس ۔



back 1 next