کیوں بعض ظالم اور گناھگار لوگ نعمتوں سے مالا مال ھیں



ایک سوال کا جواب:

مذکورہ آیت بعض لوگوں کے ذھن میں موجود اس سوال کا جواب بھی دے دیتی ھے کہ کیوں بعض ظالم اور گناھگار لوگ نعمتوں سے مالا مال ھیں اور ان کو سزا نھیں ملتی؟

قرآن کا فرمان ھے: ان لوگوں کی اصلاح نھیں ھوسکتی، قانون آفرینش اور آزادی و اختیار کے مطابق ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ھے، تاکہ تنزل کے آخری مرحلہ تک پھنچ جائیں اور سخت سے سخت سزاؤں کے مستحق ھوجائیں۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کی بعض آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خداوندعالم اس طرح کے لوگوں کو بہت زیادہ نعمتیں عطا کرتا ھے اور جب وہ خوشی اور غرور کے نشہ میں مادی لذتوں میں غرق ھوجاتے ھیں تو اچانک سب چیزیں ان سے چھین لیتا ھے، تاکہ اس دنیا میںبھی سخت سے سخت سزا بھگت سکیں، چونکہ اس طرح کی زندگی کا چھن جانا ان لو گوں کے لئے بہت ھی ناگوار ھوتا ھے، جیسا کہ قرآن مجید میںارشاد ھوتا ھے:

 <فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اٴَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا اٴُوتُوا اٴَخَذْنَاہُمْ بَغْتَةً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ >[3]

” پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ھم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ھر چیز کے دروازے کھول دئے یھاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش حال ھوگئے تو ھم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ھوکر رہ گئے“۔

در اصل ایسے لوگ اس درخت کی طرح ھیں جس پر نا معقول طریقہ سے انسان جتنا بھی اوپر جاتا ھے خوش ھوتا رہتا ھے یھاں تک کہ اس درخت کی چوٹی پر پھنچ جاتا ھے اچانک طوفان چلتا ھے اور وہ زمین پر گر جاتا ھے اور اس کی تمام ہڈی پسلیاں چور چور ھوجاتی ھیں۔[4]

 



[1] سورہٴ روم ، آیت ۴۱۔

[2] سورہ آل عمران ، آیت ۱۷۸۔

[3] سورہٴ انعام ، آیت ۴۴۔

[4] تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۳۔



back 1 2