حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی مدح و ثنا علماء کرام کی زبان پر



”یا علیّ إذا راٴیت الناس مقرّبون إلی خالقہم باٴنواع البرّ تقرّب إلیہ باٴنواع العقل تَسْبِقْہم“.

”ایسا خطاب کوئی انسان نہیں کرسکتا مگر ایسا عظیم الشان انسان کہ جس کی نسبت لوگوں کے درمیان محسوسات میں معقول کی طرح ہو۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ خیر و سبقت کے امور میں دوسروں سے مقابلہ یہ ہے کہ اگر دوسرے لوگ عبادات میں لگے ہوئے ہوںتو تم معقولات کے حصول کے لئے کوشش کروتاکہ اُن کے درجہ سے آگے بڑھ جاؤ، چونکہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ادراک ، عقلی بصیرت کے ذریعہ تھا، جس کی بنا پر محسوسات اور معقولات دونوں برابر ہیں، اِسی وجہ سے امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

”لو کشف الغطاء ما ازددت یقیناً“[5]

”اگر میرے سامنے سے پردے ہٹ جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہوگا“۔

قارئین کرام! جو Ú©Ú†Ú¾ حضرت علی علیہ السلام Ú©Û’ سلسلہ میں شیخ کلینی(علیہ الرحمہ) اور ابن سینا(علیہ الرحمہ) Ú©ÛŒ تحریر سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ گزشتہ تشبیہات Ú©Û’ علاوہ اولاً یہ کہ حضرت علی علیہ السلام دوسروںکی نسبت دوسرے شب Ùˆ روز Ú©Û’ مقابلہ میں شب قدر Ú©ÛŒ طرح ہیں ØŒ دوسرے یہ کہ تمام حسّ گرا افراد Ú©Û’ درمیان محسوسات میں معقول Ú©ÛŒ طرح ہے، تیسرے یہ کہ حکماء Ùˆ متکلمین اور صاحب نظر اور اہل عقل گرا لوگوں Ú©Û’ نزدیک مفاہیم Ùˆ معقولات میں شہود Ú©ÛŒ طرح ہے۔ چوتھے یہ کہ اولیاء، عرفائے شاہد اور صاحبان بصیرت ØŒ مشہودات Ú©Û’ درمیان غائب Ú©ÛŒ طرح ہے، کیونکہ اولیائے صاحب دل اور عرفاء شہود، غیب بالاترکے سلسلہ میں محجوب ہیں، نہ کہ وہ بصیر ہیں اور اُس Ú©Û’ بعد ممنوع، نہ کہ اُنہیں اجازت ہو لیکن اُس سے محروم اور وہ غیب بالاتر چونکہ عین Ú©ÛŒ قسم سے ہے نہ کہ ذہنی قسم سے، لہٰذا عقل نظری Ú©ÛŒ فہم وسمجھ سے باہر ہے۔ چونکہ وہ مکمل طور پر مجرد ہے اور نظر مادی اور بصری حسی خطرات Ú©Û’ گزند سے محفوظ ہے اور چونکہ غیب الغیوب دیگر غیب Ú©ÛŒ نسبت زیادہ نزدیک ہے، لہٰذا متوسط درجہ Ú©Û’ عرفاء اور اولیاء سے محفوظ ہے او رجس طرح عام لوگ حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ شناخت سے محروم ہیں، حکماء اور متکلمین بھی امام علی علیہ السلام Ú©ÛŒ وادی معرفت سے ممنوع ہیں اور جس طرح دلیل Ùˆ برہان رکھنے والے فلاسفہ لوگ حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ معرفت سے محجوب ہیں، شہود Ú©Û’ ولایت مدار لوگ اُن Ú©Û’ شہود سے بے نصیب ہیں ۔جو Ú©Ú†Ú¾ ابن سینا (رحمہ اللہ علیہ) Ù†Û’ اپنے کلام Ú©Û’ آخر میں بیان کیا یعنی حدیث ”لو کشف الغطاء“  مذکورہ معارف Ú©Û’ تحمل Ú©ÛŒ طاقت رکھتی ہے جیسا کہ خود ابن سینا (رحمة اللہ علیہ) Ù†Û’ بھی اس سلسلہ میں بہت سے بہترین اور قابل ستائش مطالب بیان کئے ہیں کہ جن Ú©Ùˆ دیکھ کر جناب فخررازی Ú©Ùˆ تعجب ہوا۔ چنانچہ وہ موصوف Ú©ÛŒ تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”اب تک عرفاء کے مقامات اور اہل معرفت کے علوم کو نہ تو بوعلی سے پہلے اور نہ بو علی کے بعد کسی نے اتنے ترتیب اور نظم برہانی سے تدوین دیا ہے“۔[6]

 



[1] اصول کافی، ج۱، باب جوامع التوحید، صفحہ ۱۳۴ تا ۱۳۶۔

[2] اصول کافی، ج۱، باب جوامع التوحید، ص۱۳۶۔

[3] شرح اصول کافی، صدر المتاٴلّہین، ص۳۴۲۔

[4] سورہ اسراء ، آیت۸۸، ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے، چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔

[5] معراج نامہ، ص۹۴، تھوڑی تبدیلی کے ساتھ۔

[6] شرح اشارات و تنبیہات، نمط نہم، فصل اول۔



back 1 2