غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ



غیر مسلموں کے ساتھ اسلام کے سلوک کا ایک تاریخی نمونہ

یہاں پر مناسب ہے کہ اس واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں جس میں پیامبر اسلا م(صلی الله علیه و آله وسلم)نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ علمی مناظرہ کیا اور وہ لوگ مغلوب ہو گئے لیکن پھر بھی مسلمان ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے تو رسول اکر م(صلی الله علیه و آله وسلم)کو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ ان کو مباہلہ کی دعوت دیں اور یہ طے ہوا کہ دوسرے دن وہ لوگ کسی معین اور مخصوص جگہ پر حاضر ہوں اور ایک دوسرے سے مباہلہ کریں تاکہ جو شخص باطل پر ہے اس پر خداکی لعنت ہو اور اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ نجران کے عیسائیوں نے پہلے تو مباہلہ کو قبول کیا لیکن جب دوسرے دن مباہلہ کرنے آئے تو دیکھا کہ رسول ۖاپنے ساتھ اپنے سب سے زیادہ محبوب اور عزیز افراد یعنی بیٹی فاطمہ زہرا ،بھائی علی مرتضیٰ اور نواسے حسنین کو لے کر آئے ہیں تو وہ لوگ مباہلہ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے اور اس بات پر معاہدہ ہوا کہ اسلامی حکومت کو جزیہ دیں گے ۔

بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی جنگ سے بچنے کے لئے فقط یہی راستہ نہیں ہے کہ ہم سارے ادیان اور مذاہب کو حق جان لیں اور اس بات کو قبول کر لیں کہ ان تمام مذاہب میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اوربھی کئی راستے ہیں اور اسلام نے خود ایک منطقی حل اور ایک بہت ہی اچھا راستہ اس کے لئے پیش کیا ہے ۔

اصل بحث کی طرف باز گشت

اب ہم اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں اور پلورالزم کی دلیلوں کی تحلیل وتنقید کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے شروع میں بھی اس جانب اشارہ کیا ،یہ بات ذہن نشین رہے کہ پلورالزم مختلف چیزوں میں قابل ذکر ہے لیکن فی الحال ہم یہاں پر صرف دینی پلورالزمم سے متعلق بحث و گفتگو کریں گے اور دوسری چیزیں جیسے سیاسی و اقتصادی پلورالزم وغیرہ سے بحث نہیں کریں گے اور کیا صحیح یا غلطہونا اور ان کی کمیت اور کیفیت ہماری گفتگو سے خارج ہے ۔اگر چہ اس زمانے میں دینی پلورالزم کی فکر پیش کرنے والا اور اس کا پرچم اٹھانے والا ''جان ہیک ''ہیں اور اس کی چند کتابیں اس کے متعلق پائی جاتی ہیں؛ لیکن دینی پلورالزم کی تفسیر کیا ہے اور اس سے کیا مراد ہے ؟ کوئی ایک خاص معنی مراد نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس کی مختلف طرح سے وضاحت کی گئی ہے ؛کم سے کم تین طرح سے اس کے معنی کو ذکر کیا جا سکتا ہے ۔

دینی پلورالزم کی پہلی تفسیر

پہلا بیان اس طرح ہے کہ ''تمام ادیان میں حق اور باطل پایا جاتا ہے ان کے درمیان فقط حق یا فقط باطل کا ہونا ناممکن ہے ''۔اس بیان کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ اگر آپ دنیا کے مختلف ادیان کو دیکھیں گے تو آپ کو مکمل طریقے سے کوئی بھی دین ایسا نہیں ملے گا جو کہ حق یا باطل ہوبہت سی باتیں سب میں مشترک پائی جاتی ہیں بہت سے احکام اور عقیدے نیزخصوصیات جو ایک دین میں ہیں ممکن ہے وہ دوسرے دین میں بھی حاصل ہو ں یعنی دوسرا دین بھی وہی خصوصیات رکھتا ہو مثلاً قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے کہ جو چیزیں ہم نے بنی اسرائیل کے لئے قرار دی ہیں وہی تمھارے لئے بھی قرار دی ہیں منجملہ انھیں احکام میں ایک حکم قصاص کا بھی ہے جس کے متعلق وضاحت سے فرمایا ہے 'یہ وہی حکم ہے جو ہم نے مسیحیوں اور یہودیوں کے لئے قرار دیا تھا ۔(١)اسی طرح آپ بیہودہ عقیدے اور باطل باتیں تمام دین میں دیکھ سکتے ہیں تواب چاہے اعتقاد کی باتیں ہوں یا احکام یا افکارو اقدار کی باتیں ہوں، ان سب کے اندر دنیا میں بہت سے حق پائے جاتے ہیں لیکن ان کا مجموعہ ایک جگہ نہیں ملے گا؛

..............

(١) ملاحظہ ہو سورہ مائدہ : آیہ٤٥ تا ٤٨۔

بلکہ ہر دین میں حقیقت کا کچھ حصہ پایا جاتاہے لہٰذایہ لازم نہیں ہے کہ آپ صرف ایک خاص دین کا اعتقاد رکھیں بلکہ ممکن ہے کہ آپ یہودی بھی رہیں ، مسیحی بھی، مسلمان بھی یا کسی اورمذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوں اس طرح کہ جس دین میںجو اچھا عنصر پایا جاتا ہو آپ اس کو اختیار کر لیں ؛یہاں تک کی بودھ مذہب جو کہ خدا کے وجود کا منکر ہے اس کے اندر بھی بعض اچھے عناصرہیں جیسے سکون روح، یکسوئی ، دنیا سے دوری وغیرہ آپ ان کو اختیار کر لیں البتہ یہ بیان ایک افراطی رجحان رکھتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ تمام ادیان میں حق وبا طل کی آمیزش اس حد تک موجود ہے کہ ایک کو دوسرے سے بہتر نہیں کہا جا سکتا ؛بلکہ وہ سب ایک ہی جیسے ہیں ان میں ایک معتدل نظریہ یہ ہے کہ اگر چہ حق و باطل کاوجود تمام ادیان میں ہے لیکن حق و باطل کی مقدار ایک طرح نہیں ہے یعنی نسبی اعتبا ر سے تفاوت ہے جس کے ذریعہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دی جا سکتی ہے، لیکن پھر بھی مطلق فوقیت نہیں پائی جاتی بلکہ تمام ادیان میں اچھائیاں اور برائیاں دوونوں ہی پائی جاتی ہیں ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next