اسلامی بیداری كے تین مرحلے



اسلامی بیداری كے تین مرحلے

مرحلہ 1: اسلامى بيداري

يہ كہ كس زاويے سے اس واقعہ پر نگاہ ڈاليں يقيناہمارے تجزيہ و تحليل ميں ( دوسروں كى نسبت ) فرق پايا جائے گااسى ليے اہل فكر حضرات نے مسلمانوں كے اس بيدار ہونے كے واقعہ كو گوناگون عناوين سے ياد كيا ہے ، انكى نوع فہم كو مندرجہ ذيل اصطلاحات كى صورت ميں معنون كيا جاسكتاہے:

اصلاح پسندي، سلفى گرى ، اپنى حقيقت كى طرف لوٹنا ، خرافات سے جنگ، جديديت ،استعمار سے مقابلہ ، اتحاد بين مسلمين ... اور اسلامى بيداري_

اسلامى بيدارى كى اصطلاح كا انتخاب اور ايك اہم باب اس بحث سے مختص كرنے كى وجہ يہ ہے كہ يہ كلمہ

انتہائي جامعيت كا حامل ہونے كے ساتھ ساتھ ديگر ابواب كے ساتھ بھى مناسبت ركھتا ہے ،ايك اور نكتہ كہ جو اسطرح نام ركھنے كى نسبت كافى اہم محسوس ہو رہا ہے وہ يہ كہ شايد سب كيلئے واضح ہو چكا ہو كہ پہلے دور يعنى منگولوں كے حملہ سے پہلے اور موجود ہ دور ميں اسلامى تہذيب و تمدن كے تمام گوناگون مراحل ميں يكسانيت موجود ہے گويا اسلامى تہذيب و تمدن كے سفر كے تمام پيچ و خم كو دھرايا جارہا ہو اور يہ صورت حال فلسفہ تاريخ كے اس مقولے كو ياد دلاتى ہے كہ '' تاريخ صرف واقعات اور حادثات تكرار كا نام ہے'' يا يہ كہيں گے كہ وجود اسلام ميں تجديد حيات اور ترقى كرنے كى استعداد اور خصوصيت قدرتاً موجود ہے اس دعوى پر گواہ عصر حاضر ميں اسلام كى صورت حال ہے اپنے اور غير سب تجزيہ نگاروں كا يہى كہنا ہے كہ اسلام دنيا كى تمام اقوام كيلئے پركشش ترين دين ہے اسكى ترقى كى سرعت دنيا كے ديگر مذاہب سے قابل موازنہ نہيں ہے، اسى بات سے يہ نتيجہ ليا جا سكتا ہے كہ يہ دين اب بھى زندہ ہے اور ديگر زندہ موجودات كى مانند اپنے اندر پاكيزگى اور تلخيص كا عمل، بوسيدہ عناصر كى اصلاح اور تعمير كا عمل ،فاسد اور مفسد مواد خارج كرنے ، اجنبى موذى اور مضر عناصر كے حملہ كے مقابلے ميںدفاع كرنے ، ترقى اور نشو ونما كرنے اور استعداد اور صلاحيتوںكو عمل ميں لانے كى قدرت ركھتا ہے_

اسلامى بيدارى كا آغاز خود اصل اسلام كى مانند لوگوں كو دعوت دينے سے شروع ہوا ،امير عبدالقادر، سيد جمال الدين اسد آبادى ، شيخ محمد عبدہ، سيداحمد خان، شيخ فضل اللہ نورى ، عبدالرحمان كواكبي، شيخ شامل ، رشيد رضا، علامہ اقبال لاہوري، سيد حسن مدرس، حسن البنائ، سيد قطب، ابو الاعلامودودي، سيد محسن امين جبل عاملي ... اور آخر كا امام خمينى سب نے لوگوں كو پلٹنے اور احياء اسلام كى دعوت دى اور لوگوں نے اس دعوت كو قبول كيا، اسلامى اقوام سے گرو ہ درگروہ لوگوں نے دوبارہ اسلام كے ساتھ بيعت كى ، خواص كى اس دعوت اور عوام كى قبوليت كا نتيجہ تمام عالم اسلام ميں دين اور دينى اقدار كو زندہ كرنے كى ايك وسيع تحريك كو جنم دينے كى صورت ميں نكلا_

 

عصر حاضر كى تاريخ اور موجودہ زمانہ كے واقعات كا تجزيہ كريں تو مكمل طور پر يہ حقيقت ہم پر آشكار ہوتى ہے كہ كوئي ايسا اسلامى ملك نہيں ہے كہ جہاں اسلامى بيدارى يا اسلام كى طرف پلٹنے كى تحريك كى علامات نہ ہوں يہ حقيقت اسلامى نشا ة ثانيہ كى پہلے مرحلہ ميں واضح كاميابى كى حكايت كر رہى ہے ، اس مرحلہ كى اہميت اتنى زيادہ ہے كہ آج اسلامى سرزمينوں پر بھو كى نگاہيں ركھے ہوئے قديم استعمار كے وارث '' انسانى حقوق كى حمايت '' اور '' صلح ،امن اورجمہوريت كے دفاع'' كى چادر اوڑھے '' تہذيبوں كے ٹكراؤ'' كا راگ الاپتے ہوئے اسكى نابودى پر كمر باندھ چكے ہيں اور سوويت يونين كے ٹوٹنے كے بعد اپنى تمام تر فوجى طاقت كے ساتھ مسلمانوں كے مقابلے ميںصف آرا ہو چكے ہيں_

مرحلہ 2: اسلامى حكومت كى تشكيل

پہلى تقسيم كے مطابق زمانہ دعوت (اسلام كى طرف لوٹنا) كے بعد دوسرا مرحلہ اسلامى حكومت كى تشكيل ہے، شيعہ اور سنى دونوں مكاتب فكر ميں ايك اسلامى حكومت كى تشكيل كے حوالے سے نظرياتى اور عملى ميدانوں ميں شدت سے كوشش شروع ہوئي، اہل سنت كى دنيا ميں عنوان خلافت كو مختلف دانشور حضرات نے اسلامى حكومت كى تشكيل كيلئے محور قرار ديتے ہوئے لوگوں كو اسى عنوان كى طرف لوٹنے كى دعوت دي، رشيد رضا جو كہ سلفى فكر كے اساسى ستونوں ميں سے شمار ہوئے ہيں انہوں نے خلافت كے موضوع كو انتہائي مضبوط انداز ميںپيش كيا اس حوالے سے انكى عملى تجويز يہ تھى :عالم اسلام ميں شہر موصل كو مركز قرار ديتے ہوئے اور امام ہادى يعنى يمن كے زيدى امام (رشيد رضا كے ہم عصر ) كى خليفةالمسلمين كے عنوان سے بيعت كرتے ہوئے بين الاقوامى اسلامى حكومت تشكيل دى جائے_

شيعہ دنيا ميں آيت اللہ نائينى نے عصر جديد ميں اسلامى حكومت كى تشكيل كو نظرى شكل دى اور اسے ايك كتاب '' تنبيہ الامة و تنزيہ الملة'' كى صورت ميں نشر كيا، اور امام خمينى نے ولايت فقيہ كے موضوع كو پيش كرتے ہوئے آج كے دور كے تقاضوں كے عين مطابق اسلامى حكومت كے ماڈل كو سامنے لائے_

 



1 2 next