حضرت رسول اکرم (ص) کا یہودی علماء سے مناظرہ



یہودیوں نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے اس کی تعریف کی تھی مگر اب وہ اسے بد ترین شخص اور ذلیل آدمی کا بیٹا بتانے لگے۔

آپ کا یہ طرز استدلال نہایت عمدہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا منہ چھپانے لگے لیکن در حقیقت وہ شکست کھا چکے تھے ،عبد اللہ کے لئے اگر چہ اسلام اس زمانہ میں بہت دشوار ثابت ہوا لیکن وہ حقیقتاً اسلام لایا تھا،اسی لئے آنحضرت نے اس کا نام عبد اللہ رکھا تھا[7] اس کا ایمان قبول کرنا بعد میں اور دوسرے ایمان لانے والوں کے لئے ہی موٴثر ثابت ہوا، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک یہودی دانشور جس کانام ”مخَیرِق“ تھا وہ بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا۔[8]

 



[1] مدینے کے دوبڑے قبیلے جو اسلام کے بعد متحد ہوئے اور جنھیں انصار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

 

[2] آزاد بحث اگر چہ ایک اسلامی موضوع ہے جس کے ذریعہ حق آشکار ہوتا ہے لیکن یہودیوں نے چاہا کہ اس بحث کی آڑ میں اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت کو مجروح کریں لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

 

[3] سوره بقره آیت 88.

[4] عبد اللہ کانام ”حُصین “تھا، یہودی ا س کا بڑا احترام کرتے تھے، اسلام لانے Ú©Û’ بعد آنحضرت  صلی الله علیه Ùˆ آله وسلم Ù†Û’ اس کا نام عبد اللہ رکھا دیا تھا۔

[5] اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبد اللہ ضدی ،سرکش،خود خواہ اور نفسانی خواہشات کا اسیر نہیں تھا بلکہ حق پسند وحق طلب تھا اسی وجہ سے وہ یقینی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا،حق طلبی کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان آزاد فکر اور ہر طرح کے تعصب سے دور ہو۔

[6] بعض مفسروں نے ان آیتوں کی شان نزول کے بارے میں کہا ہے کہ یہ عبد اللہ بن صوریا کے بارے میں نازل ہوئی ہےں لیکن اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ عبد اللہ بن سلام نے اس طرح کی بحث نہ کی ہوگی ۔

 

[7] جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس کا نام حُصین تھا ۔

 

[8] نا سخ التواریخ ج۱،ص ۳۹،سیرة ابن ہشام ج۱، ص۵۱۶اور احتجاج طبرسی ج۱۔

 



back 1 2 3 4