امام زين العابدين عليه السلام کی حیات طیبہ



امام زين‏ العابدين علیہ السلام نے ایسے حالات میں امامت کا عہدہ سنبھالا جبکہ صرف تین افراد آپ (ع) کے حقیقی پیروکار تھے اور آپ (ص) نے ایسے ہی حال میں اپنی علمی و تہذیبی و تعلیمی جدوجہد اور بزرگی علمی و ثقافتی شخصیات کی تربیت کا آغاز کیا اور ایک گہری اور مدبرانہ اور وسیع تحریک کے ذریعے امامت کا کردار ادا کرنا شروع کیا اور امام سجاد علیہ السلام کی یہی تعلیمی و تربیتی تحریک امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی عظیم علمی تحریک کی بنیاد ثابت ہوئی ۔ اسی بنا پر بعض مصنفین اور مؤلفین نے امام سجاد علیہ السلام کو "باعث الاسلام من جديد"۔ (نئے سرے سے اسلام کو متحرک اور فعال کرنے والے) کا لقب دیا ہے ۔

واقعے کے شاہد

امام سجاد علیہ السلام کربلا میں حسینی تحریک میں شریک تھے اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہيں ہے لیکن تحریک حسینی کے آغاز کے ایام سے امام سجاد علیہ السلام کے معاشرتی اور سیاسی کردار کے بارے میں تاریخ ہمیں کچھ زیادہ معلومات دینے سے قاصر نظر آرہی ہے ۔ یعنی ہمارے پاس وسط رجب سے ـ جب امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوئے، مکہ میں قیام کیا اور پھر کوفہ روانہ ہوئے اور 10 محرم سنہ 61 ہجری کو شہید ہوئے لیکن ـ امام سجاد علیہ السلام کے کردار کے بارے میں تاریخ کچھ زیادہ اطلاعات ہم تک پہنچانے سے قاصر ہے اور تاریخ و سیرت اور سوانح نگاریوں میں ہمیں امام سجاد علیہ السلام شب عاشور دکھائی دیتے ہیں اور شب عاشورا امام سجاد علیہ السلام کا پہلا سیاسی اور سماجی کردار ثبت ہوچکا ہے ۔

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہيں: شب عاشور میرے والد (سیدالشہداء فرزند رسول امام حسین بن علی علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو بلوایا ۔ میں بیماری کی حالت میں اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا تا کہ آپ (ع) کا کلام سن لوں۔ میرے والد نے فرمایا: میں خداوند متعال کی تعریف کرتا ہوں اور ہر خوشی اور ناخوشی میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں ... میں اپنے اصحاب سے زیادہ با وفا اور بہتر اصحاب کو نہیں جانتا اور اپنے خاندان سے زیادہ مطیع و فرمانبردار اور اپنے قرابتداروں سے زیادہ صلہ رحمی کے پابند، قرابتدار نہيں جانتا ۔ خداوند متعال تم سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے ۔

میں جانتا ہوں کہ کل (روز عاشورا) ہمارا معاملہ ان کے ساتھ جنگ پر منتج ہوگا ۔ میں آپ سب کو اجازت دیتا ہوں اور اپنی بیعت تم سے اٹھا دیتا ہوں تا کہ تم فاصلہ طے کرنے اور خطرے سے دور ہونے کے لئے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاسکو اور تم میں سے ہر فرد میرے خاندان کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور سب مختلف شہروں میں منتشر ہوجاؤ تا کہ خداوند اپنی فراخی تمہارے لئے مقرر فرمائے ۔ کیونکہ یہ لوگ صرف مجھ سے سروکار رکھتے ہیں اور اگر مجھے اپنے نرغے میں پائیں تو تم سے کوئی کام نہ رکھیں گے ۔

اس رات امام سجاد علیہ السلام بیمار بھی تھے اور یہ حقائق بھی دیکھ رہے تھے چنانچہ آپ (ع) کے لئے وہ رات بہت عجیب و غریب رات تھی ۔ آپ (ع) نے اس رات امام حسین علیہ السلام کی روح کی عظمت اور امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی شجاعت اور وفاداری کے اعلی ترین مراتب و مدارج کا مشاہدہ فرمایا جبکہ آپ (ع) اپنے آپ کو بعد کے ایام کے لئے تیار کررہے تھے ۔

حضرت علی بن حسین علیھما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جس شام Ú©ÛŒ صبح Ú©Ùˆ میرے باباشھید کردئے گئے اسی شب میں بیٹھا تھا اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں۔ اسی اثنا میں میرے بابا اصحاب سے جدا ہوکر اپنے خیمے میں آئے Û” آپ Ú©Û’ خیمے میں  ابوذر (رض) Ú©Û’ غلام ''جَون'' بھی تھے جو آپ (ع) Ú©ÛŒ تلوار Ú©Ùˆ Ú©Ùˆ صیقل دے رہے تھے اور اس Ú©ÛŒ دھار سدھار رہے تھے جبکہ میرے بابا یہ اشعار Ù¾Ú‘Ú¾ رہے تھے :

 

يا دهر افٍّ لک من خليل

کَمْ لَکَ في الاشراق و الأَصيل



back 1 2 3 next