اسلامی اتحاد کی ترغیب



اہل بیت  ان چیزوں Ú©ÛŒ بزرگی اور مضبوطی Ú©ÛŒ شدید خواہش رکھتے تھے جن سے اسلام کا اظہار ہوتا ہے Û” اور اسلام Ú©ÛŒ عزت، مسلمانوں Ú©Û’ اتحاد، ان میں بھائی چارے Ú©ÛŒ حفاظت اور مسلمانوں Ú©Û’ دلوں اور ذہنوں سے ہر قسم Ú©ÛŒ دشمنیاں دور کرنے Ú©ÛŒ ترغیب دیتے تھے Û”

مولی الموحدین ØŒ امام المتقین ØŒ امیر المومنین حضر ت علی  کا ان خلفاء Ú©Û’ ساتھ طرز عمل جو ان سے پہلے مسند خلافت پر بیٹھے تھے بھلایا نہیں جاسکتا۔ اگرچہ آپ خلافت Ú©Ùˆ اپنا حق سمجھتے تھے اور ان لوگوں غاصب ØŒ تاہم آپ Ù†Û’ ان Ú©Û’ ساتھ (مسلمانوں Ú©Û’ اتحاد Ú©ÛŒ حفاظت Ú©ÛŒ خاطر) صلح جوئی اور مصاحبت رکھی بلکہ (ایک مدت تک) آپ Ù†Û’ اپنا یہ عقیدہ بھی عوام Ú©Û’ مجمعوں میں پیش نہیں کیا کہ منصب خلافت پر جس کا تعین کیا گیا ہے وہ صرف وہی ہیں لیکن جب حکومت آپ Ú©Û’ ہاتھ میں آئی تو آپ Ù†Û’ ""میدان رحبہ"" (نوٹ،کوفہ کا وہ مقام جہاں امیرالمومنین  عموماً اپنے دور خلافت میں خطبہ دیا کرتے تھے) میں رسول  Ú©Û’ باقی ماندہ اصحاب سے جنہوں Ù†Û’ غدیر Ú©Û’ دن حضور سرورکائنات  Ú©ÛŒ طرف سے آپ کا تقرر دیکھا تھا گواہی چاہی، آپ Ù†Û’ ان باتوں کا بے جھجک ذکر کیا جن میں مسلمانوں Ú©Û’ فائدے اور بھلائیاں تھیں Û” یہ اسی اتحادالمسلمین Ú©Û’ خیال سے تھا جو آپ Ù†Û’ اپنی حکومت سے پہلے Ú©Û’ زمانے Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

فَخَشِیتُ اِن لَّم اَنصُرِالاِسلاَمَ وَ اَھلَہُ اَرٰی فِیہِ ثَلماً وَّھَدماً :۔مجھے ڈر تھا کہ اگر میں اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ نہیں دوں گا تو اسلام میں تفرقہ اور تباہی پھیل جائے گی ۔

یہی وجہ تھی کہ خلافت شروع ہونے Ú©Û’ بعد امام  Ú©ÛŒ جانب سے کوئی ایسی بات دیکھنے میں نہیں آئی کہ ان Ú©ÛŒ گفتگو یا عمل سے (اسلام Ú©ÛŒ طاقت Ú©ÛŒ حفاظت Ú©Û’ خیال سے)خلفاء Ú©ÛŒ طاقت اور دبدبے Ú©Ùˆ نقصان پہنچے یا ان Ú©ÛŒ طاقت گھٹنے یا ان Ú©ÛŒ شان اور رعب میں بٹا Ù„Ú¯Ù†Û’ کا سبب بنتی ØŒ خلفاء Ú©ÛŒ ان کارروائیوں Ú©Û’ باوجود جو آپ دیکھتے تھے اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے گھر میں بیٹھے رہے یہ تمام احتیاطیں محض اس لیے تھیں کہ اسلام Ú©Û’ فائدے محفوظ رہیں اور اسلام اور مسلمانوں Ú©Û’ اتحاد اور میل جول Ú©Û’ محل میں کوئی خرابی اور دراڑ پیدانہ ہو چنانچہ یہ احتیاط لوگوں Ù†Û’ آپ ہی سے سیکھی سمجھی Û”

حضرت عمر ابن خطاب بار بار کہتے تھے:

لاَ کُنتُ لِمُعضَلَۃٍ لَیسَ لَھَا اَبُو الحَسَن :۔ خدا نہ کرے کہ میں ایسی مشکل میں پڑوں کہ جہاں ابوالحسن نہ ہوں ۔

یا لَولاَ عَلِّیٌ لَھَلَکَ عُمَرُ :۔ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔

(نوٹ، ۱۔صحیح بخاری، کتاب المحاربین ، باب الایرجم المجنون ،سنن ابی داود، باب مجنون یسرق صفحہ ۱۴۷، مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۴۰ و ۱۵۴،سنن دار قطنی، کتاب الحدود صفحہ ۳۴۶، کنرالعمال، علی متقی، جلد ۳ صفحہ ۹۵،فیض القدریر ،منادی،جلد ۴ صفحہ ۳۵۶، موطا، مالک، کتاب الاشر بہ صفحہ ۱۸۶ ، مسند، شافعی، کتاب الاشربہ صفحہ ۱۶۶ ، مستدرک حاکم جلد ۴ صفحہ ۳۷۵، سنن بیہقی صفحہ ۱۲۳ ، ریاض النضرہ، محب طبری، جلد ۲ صفحہ ۱۹۶، طبقات ابن سعد جلد ۲ باب ۲ صفحہ ۱۰۲، شرح معافی الآثار، طحاوی، کتاب القضاء صفحہ ۲۹۴ ، استیعاب، ابن عبدالبر، جلد ۲ صفحہ ۴۶۳، نورالابصار، ثعلبی، صفحہ ۵۶۶، درمنشور، سیوطی، سورہ مائدہ آیت خمر)

امام حسین  Ú©ÛŒ روش بھی کبھی بھلائی نہیں جاسکتی کہ انہوں Ù†Û’ کس طرح اسلام Ú©ÛŒ حفاظت Ú©ÛŒ خاطر معاویہ سے صلح کی، جب آپ Ù†Û’ دیکھا کہ اپنے حق Ú©Û’ دفاع Ú©Û’ لیے جگ پر اصرار کرنا، قرآن اور عادلانہ حکومت ہی کونہیں بلکہ اسلام Ú©Û’ نام Ú©Ùˆ ہمیشہ ہمیشہ Ú©Û’ لیے مٹادے گا اور شریعت الہٰیہ Ú©Ùˆ بھی نابود کردے گا تو آپ Ù†Û’ اسلام Ú©ÛŒ ظاہری نشانیوں اور دین Ú©Û’ نام Ú©ÛŒ حفاظت ہی Ú©Ùˆ مقدم سمجھا۔

اگرچہ یہ رویہ اس Ú©Û’ برابر ٹھہرا کہ ان ظالموں Ú©Û’ باوجود جن Ú©Û’ بارے میں یہ انتظار تھا کہ آپ پر اور آپ Ú©Û’ شیعوں پر ڈھائے جائیں Ú¯Û’ØŒ معاویہ جیسے اسلام اور مسلمانوں Ú©Û’ سخت دشمن اور آپ سے اور آپ Ú©Û’ شیعو سے دل میں بغض اور کینہ رکھنے والے دشمن سے صلح Ú©ÛŒ جائے Û” اگرچہ بنی ہاشم اور آپ Ú©Û’ عقیدت مندوں Ú©ÛŒ تلواریں نیام سے باہر Ø¢Ú†Ú©ÛŒ تھیں اور حق Ú©Û’ بچاؤ اور حصول Ú©Û’ بغیر نیام میں واپس جانے Ú©Ùˆ تیار نہیں تھیں لیکن امام حسن  Ú©ÛŒ نظر میں اسلام Ú©Û’ اعلیٰ فوائد اور مقاصد Ú©ÛŒ پاسداری ان تمام معاملات پر فوقیت رکھتی تھی Û”



1 2 next