بہارِ انقلاب سے انقلابِ مہدی تک



تحریکوں کا مدعا و مقصد یہی ہے کہ ضمیر انسانیت سے مہدئ موعود کی تحریک کا نقش محو نہ ہو نے پائے۔ صدرِ اسلام کے بعد وقوع پذیر ہونے والی تمام تحریکوں کو انقلابِ مہدی کی تمہید کہاجا سکتا ہے / صالح انقلابات کی تکمیل اسی وقت ہوگی جب حضرت ولی عصر اپنی تجلی سے عالمِ وجود و امکان کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے؛ نہ صرف نظامِ جہاں بانی کی ظاہری ہیئت کی کایا پلٹ ہو گی بلکہ ضمیر و وجدان بھی اس انقلاب سے متا ثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔

موت ہے وہ زندگی جسمیں نہ ہو انقلاب

کشمکشِ انقلاب روحِ امم کی حیات (علامہ اقبال)

 

اس تیز رفتار اور ہنگامہ خیز دور میں جمادات کو بھی جمود زیب نہیں دیتا ہے۔ چہ جائے کہ انسان اور اس کی زندگی کے مختلف نظام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں جمود نے سر اٹھایا وہاں جاکے موت نے اپنا ڈھیرا جمایا۔ مردہ انسانوں اور نظاموں کی لاشوں کو ظلم و جبر کے سرد خانوں میں ٹھونس کر ان کے تئیں یہ باور کرانا سراسر خودفریبی ہے۔ کہ یہ ابھی صحیح و سالم ہیں لیکن جب عوام میں جوشِ انقلاب انگڑائیاں لینے لگے تو یہ سرد خانے اس کی زد میں آنے سے نہیں بچ پاتے ہیں۔ ن

تیجتاً ان لاشوں کی حقیقت طشت از بام ہوجاتی ہے اور ان کی عفونت سے پوری دنیا الامان و الحفظ کہتی ہے۔ جس کی تازہ مثال مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کے بہار انقلاب کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

بدقسمتی سے مسلم دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص عرب دنیا میں ضمیر فروش، خائن، بدکردار، جابر و ظالم، بے ایمان اور گمراہ حکمرانوں نے سالہا سال سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ اور وہ جمود کو متاع حیات جان کر ہر قسم کے تغیر اور ارتقا کو اپنی موت تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا مدت سے اسی کوشش میں ہیں کہ عوام پر غفلت و بے خبری کا عالم طاری رہے۔ اس جمود کو بر قراررکھنے کیلئے ان جارح حاکموں نے ہر طرح کے جتن کئے۔ انہوں نے اپنے فرسودہ نظام کو دوام بخشنے کی خاطر کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

کوئی ایسا ہتھکنڈہ نہیں ہے جس کو انہوں نے استعمال میں نہ لایا ہو۔ کوئی ایسی منافقانہ چال نہیں جس سے انہوں نے استفادہ نہ کیا ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ مغرب بالخصوص استعماری طاقتوں کی غلامی کے پھندے کو انہوں نے کسی اعزازی میڈل سے کم تر نہیں جانا۔ حرمِ پاک کے قرب وجوار میں رہ رہے ان حاکم نما استعماری غلاموں نے وائٹ ہاؤس کو ہی مرکز امید گردانا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ماسوائے اپنی ذات اور مٹھی بھر پیروکاروں کے تمام مسلمانوں کو بت پرست اور مشرک تصور کرتے ہیں۔ بقول کسے بت پرستی کے (ظاہراً) زبردست مخالف مگر ’’بش پرستی‘‘ اور ’’اوباما نوازی‘‘ میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

 

خدا سے نا امیدی بتوں سے امید



1 2 3 next