فاتح،شام ، حضرت زينب (س)



 

فاتح،شام ، حضرت زينب (س)، ن

انساني تارخ ميں ابتدا سے آج تک حق وباطل کے درميان بہت سي جنگيں ھوئي ھيں ليکن ان تمام جنگوں ميں وہ معرکہ او رواقعہ اپني جگہ پر بے مثل ھے جو کربلا کے ميدان ميں رونما ھوا، يہ معرکہ اس اعتبار سے بھي بے مثال ھے کہ اس ميں تلواروں پر خون کي دھاروں نے، برچھيوںپر سينوں نے او رتيروں پر گلوں نے فتح وکاميابي حاصل کي، اس طرح اس جنگ کا مظلوم آج تک محترم فاتح او رھر انصاف پسند انسان کي آنکھوں کا تارا ھے جبکہ ظالم ابد تک کے لئے شکست خودرہ او رانسانيت کي نگاہ ميں قابل نفرت ھے۔

اس معرکہ ميں يزيد جيسے فاسق وفاحر حاکم سلطنت کے مقابل خود رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسہ سيد الشھدا امام حسين عليہ السلام نے اس کي بيعت سے انکار کرتے ھوئے اپني بغاوت کا اعلان کيا، آپ نے خود فرمايا: ”ھم اھل بيت نبوت ھيں ھم رسالت کے معدن ھيں، ھمارے گھروں ميں فرشتوں کي آمد ورفت رھي ھے، خدا نے ھم سے ھي دنيا کا آغاز کيا ھے اور ھم ھي پر اس کائنات کا خاتمہ کرنے والا ھے جبکہ يزيد فاسق وفاجر ھے، شراب پيتا ھے، محترم او ربے گناہ انسانوں کو خون بھاتا ھے او رکھلم کھلا گناہ او ربرائياں کرتا ھے لہٰذا ميرے جيسے لوگ اس جيسے کي بيعت نھيں کرتے“ اس طرح امام حسين عليہ السلام نے اس اعلان کے ذريعہ اپنے ساتھ ماضي اور مستقبل کے تمام حق پسند انسانوں اور ايمان وحقانيت کا پرچم بلند کرنے والوں کي حيثتوں کو واضح کرکے کسي بھي عھد ميں ان کے باطل کے آگے نہ جھکنے کا اعلان کرديا۔

بظاھر اس کي بڑي سخت سزا امام حسين عليہ السلام کو دي گئي، آپ کو فہ والوں کي دعوت پر مکہ سے عراق کي طرف روانہ ھوئے، ليکن ابن زياد جو يزيد کي جانب سے کوفہ کا نيا گو رنر مقرر ھوا تھا، اس کي سفاکانہ چالوں، شدت پسندي او رمال ودولت او رمنصب کي لالچ اور وعدہ وں کو فريب نيز اس کي طرف سے پھيلائے جانے والے عام خوف وھراس نے اھل کوفہ سے تاريخ کي وہ سب سے بڑي غلطي کرائي جس کے برے اثرات عراق پر آج تک باقي ھيں، دنيا بھي اس کے مکروہ نتائج سے اب تک سرگرداں ھے، او رمستقبل ميں بھي خدا جانے کب تک اس کا شکار رھے۔

اھل کوفہ کي اکثريت نے نواسہ رسول امام حسين سے بے وفائي کي او راشام کے لشکر کے علاوہ آپ کو قتل کرنے کے لئے کربلا پھونچ گئے امام مظلوم نے اپنے ھمراہ کوئي لشکر نھيں ليا بلکہ اپنے چند باوفا ساتھيوں ، اپنے بھائيوں، بھتيجوں او ربھانجو ں کے ھمراہ قرباني دي،قربان کي حکمت کي اپني مظلومانہ روش کو اختيار کيا جواب ميں ظالم اور سفاک وجري ھوگئے اور انھوں نے تين دن تک آپ پر پاني بند کرکے انتھائي درندگي کے ساتھ آپ کو آپ کے ساتھيوں او راھل خاندان کے ھمراہ شھيد کرڈالا، اس طرح رسول اکرم صلي اللہ عليہ وئلہ وسلم کے ان نام نھاد امتيوں نے رسول چشم مبارک کے بند ھونے کے چند ھي برسوں بعد آپ کے خاندان ک وبڑي درندگي کے ساتھ قتل کرديا بلکہ آنحضرت کي عظمت وحرمت کو بھي اامام حسين عليہ السلام کي لاش کے ھمراہ کربلا ميں گھوڑوں کي ٹاپوں سے پامال کرڈالا۔

قتل حسين مظلوم Ú©Û’ بعد ان Ú©Û’ خيموں ميں آپ لگائي گئي، اور نواسہ رسول اسلام Ú©Û’ گھر Ú©Ùˆ بڑي بے باکي Ú©Û’ ساتھ لوٹ ليا گيا، رسول زاديوں Ú©Û’ سروں سے چادريں اتار لي گئيں او رامام حسين Ú©Û’ بيمار بيٹے امام زين العابدين  عليہ السلام جو اس معرکہ ميں بچ گئے تھے ان Ú©Û’ ھاتھوں اور پيروں ميںہتھکڑياں او ربيڑياں او رگلے ميں طوق پہنايا گيا، او رانھيں سربرہنہ رسول زاديوں Ú©Û’ ھمراہ کربلا سے قيد او راسير کرکے کوفہ اور وھاں سے شام Ù„Û’ جايا گيا۔

ان مقامات پر اگرچہ امام زين العابدين عليہ السلام بظاھر قيدي تھے اس Ú©Û’ باوجود اپني مظلوميت Ú©Û’ ھمراہ اپنے باپ امام حسين عليہ السلام Ú©ÙŠ بے مثال قرباني او ران Ú©ÙŠ مظلوميت او ران Ú©ÙŠ حقانيت کا ھر موقع پر اعلان کرتے رھے، او رفريضہ امامت Ú©Ùˆ ادا کرتے رھے، جس  Ú©ÙŠ صرف ايک جھلک يھاں ذکر Ú©ÙŠ جاتي Ú¾Û’ØŒ کہ جب آپ Ú©Ùˆ اور ايک Ú¾ÙŠ رسي تمام اھل حرم Ú©Ùˆ باندھ کر يزيد لعين Ú©Û’ دربار ميں جھاں سات سو کرسي نشينوں کا مجمع تھا، لايا گيا تو آپ Ù†Û’ يزيد سے خطاب کرکے فرمايا: اے يزيد يہ بتا اگر اس وقت حضرت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم تيرے دربار ميں آجائيں تو وہ کھاں بيٹھنا پسند کريں Ú¯Û’ØŒ تيرے پاس، يا اپني ان اولاد Ú©Û’ پاس جنھيں تو Ù†Û’ اس طرح ذليل کرکے او ررسيوں ميں جکڑ کر خاک پر بٹھارکھا Ú¾Û’ØŸ

ليکن مظلوميت کے اس اسير شدہ قافلہ کي قيادت وسرداري جس شخصيت کے ھاتھوں ميں تھي وہ کربلا کي شير دل خاتون اور علي جيسے شجاع انسان کي شجاع بيٹي جناب زينب تھي،اگرچہ آپ کا دل کربلا کے دردناک واقعہ سے ٹکڑے ٹکڑے تھا او راپني نگاھوں کے سامنے عزيزوں کا اتنھائي سفاکانہ قتل اور اپنے عزيز ترين بھائي يعني حسين کا گلا شمر لعين کے ھاتھوں کٹتے ھوئے ديکھ کر آپ کي آنکھيں خون کے آنسو رورھي تھيں، اور خاص طور سے آپ کي بے پردگي نے آپ کو نيم جان بنارکھا تھا، اس کے باوجود آپ نے خاندان رسالت کي مظلوميت، اپنے بھائي حسين کي حقانيت اور بني اميہ کے ظلم وستم کو آشکار کرنے کے کسي بھي موقع کو ھاتھ سے جانے نہ ديا۔

اھل کوفہ نے جب آل محمد کي اس بے کسي بيبيوں کي سربرہنہ اسيري نيز حسين او ران کي اولاد او رانصار کے کٹے ھوئے سروں کو نيزوں پر بلند ديکھا تو رونے لگے اس پر جناب زينب سے ان کي ضميروں کو جھنجھوڑتے ھوئے فرمايا: اب تم رورھے ھو، اے اھل کوفہ تمھيں ھميشہ رونا نصيب ھو پھلے تم نے ھي ميرے بھائي کو خط لکھ کر بلايا اور جب وہ آئے تو ان کے ساتھ دغا کي او رانھيں کربلا ميں تين دن کا بھوکا پياسا قتل کرڈالا، ان کے عزيزوں کو تہہ تيغ کيا اور ان کے بچو ںاو رخواتين کو اسير کرکے بازاروں اور درباورں ميں پھرا رھے ھو، او رروبھي رھے ھو۔۔۔؟

جب کوفہ او رشام کے بازاروں ميں ان اسيروں کي طرف صدقہ کے خرمے پھينکے جارھے تھے تو اس وقت آپ ان نادانوں سے اپنا تعارف کراتے ھوئے فرماتي تھيں: ھماري طرف صدقے کے خرمے نہ پھيکو، ھم آل محمد ھيںاور ھم پر صدقہ کھانا حرام ھے۔

اپنے بيمار بھتيجے امام زين العابدين (ع) کے ساتھ ساتھ آپ نے بھي قرآني آيات اور احاديث رسول اکرم سے استدلال کرتے ھوئے يزيد کے دربار ميں ايسي تقرير فرمائي اور يزيد کو اس کے ھمنواؤں کے سامنے اس طرح بے نقاب کرديا کہ وہ يزيد جو اھل حرم کو پھلے دن اپنے دربار ميںديکھ کر غرور کے عالم مںي وہ اشعار پڑھنے لگا تھا جس کا مطلب تھا کہ ”بني ھاشم نے حکومت کے لئے ايک کھيل کھيلا تھاورنہ،نہ تو کوئي وحي آئي او رنہ کوئي رسول آيا اے کاش بدر ميں قتل ھونے والے ميرے بزرگ زندہ ھوتے او رديکھتے کہ ميں بني ھاشم سے ان کے قتل کا کيسا سخت انتقام ليا ھے“ اب وھي يزيد جناب زينب کے خطبوں کے سامنے بغليں جھانکنے لگا اور اپنا الزام ابن زياد اور شمر کے سر ڈالنے لگا، جناب زينب کے آتشيں خطبوں او ران کي مظلومانہ فرياد نے چند دونوں ميں ھي حقيقت کھول کر رکھ دي او راھل شام کو يزيد کي کرتوتوں کا پتہ چل گيا، کہ خليفة المسليمن بن کر وہ باغيوں کے قتل کا مرتکب ھوا ھے وہ کوئي خارجي نھيں بلکہ ان کے رسول کا نواسہ اور ان کي پارہ جگر فاطمہ زھرہ کا بيٹا ھے، او ريہ قيدي خود آنحضرت کے بچے ھيں جن کے ساتھ اس نے يہ بدسلوکي کي ھے۔ شام کي بدلتي ھوئي فضا نے يزيد کو مجبور کرديا کہ وہ جلد از جلد اھل حرم کو رھا کردے او ريہ جناب زينب کي سب سے پھلي کاميابي تھي کہ آپ نے رھائي کے فوراً بعد خود يزيد کے گھر يعني شام ميں اپنے بھائي کي صف عزا بچھائي، اور وہ اربعين کا دن تھا جب يہ دکھيا بہن اپنے بھائي کا چھلم کرنے کربلا پھونچي تھي اور اپنے بھائي کي قبر پر روتے ھوئے شام کي فتح کا اعلان کيا تھا۔



1