نسوانیت کا استحصال



پہلے گھروں میں جو خلوت گزینی اور امن و آشتی کا ماحول دیکھنے کو ملتا تھا وہ افراد خانہ خصوصاً میاں بیوی کے درمیان محبت اور کشش کو بڑھاوا دینے کا باعث ہوتا تھا جس کے اثر سے شوہروں کے اندر شام کو دیر تک آوارہ گردی میں گھومتے رہنے کی بجائے جلدی گھر پہنچ جانے کی لگن جلا پاتی تھی، لیکن یہ آہستہ آہستہ ماضی کی داستان رہ گئی

8 مارچ کو کئی دہائیوں سے دنیا کے بیشتر ممالک میں ”خواتین کا بین الا قوامی دن“ منایا جاتا ہے، یہ خوش آیند بات ہے کہ چند برس سے متعدد مشرقی ممالک میں عورت کے مثبت رول کے حوالہ سے اس یوم کا انعقاد کیا جانے لگا ہے، اگرچہ اس کو متعارف کرنے کی تحریک میں زیادہ تر وہی حلقے پیش پیش رہ چکے ہیں، جنہوں نے ”نسوانیت“ کا استحصال کر رکھا ہے، ذیل میں اُنیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے سرمایہ دارانہ نظریہ کے حامل اداروں کی طرف سے اس سمت میں مذموم رول کی اجمالی نشان دہی کی جاتی ہے، جس کے ذریعے انہوں نے خاتوں کی اصلیت و افادیت کو مادّی منفعت کی بھینٹ چڑھا کر رکھا ہے اور اسطرح نسوانی ماہیت کا استحصال کیا ہے، جس کے نتیجہ میں عورت "عافیت و آبرو" کے مقام سے گِر کر ذلّت و خطرات کی منزل تک پہنچ چکی ہے ۔

 

تاریخی جائزہ:

 

یورپی مفکرین اور سیاست دان اسلام کے بارے میں ایک مبہم تصور کے حامل تھے، انہوں نے اپنے سماج میں انیسویں صدی کے دوران پرانی روایات کے اندر اصلاح کی غرض سے چند تبدیلیاں لانے کی کوشش کی، اس سلسلے میں انہوں نے مسلمانوں میں بعض سطحی طور پر پائی جانے والی باتوں کو اچھال کر اسلام کے متعلق غلط تائثر پیش کیا، لیکن اُن کی صفوں میں چند ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے اسلام کے اعلٰی اصولوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی تھی، خصوصاً خواتین کے حقوق اور انکے اختیارات کے بارے میں، اس لئے ان خطرات سے اپنے معاشرہ کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جو اسلام کے حوالے سے مذکورہ غلط تائثر کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتے تھے ۔ اس دور کے متعلقہ مکار سیاست کاروں کو بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان اسلام کی سماجی خوبیوں کو قول و فعل کی ہم آہنگی کے ساتھ اپنائیں، اُس کے مثبت اثر و نفوذ کی چھاپ پورے انسانی معاشرہ پر پڑ سکتی ہے، کیونکہ ایسا تائثر دنیا کو اُن محرکات کے حوالے سے متوجہ و مربوط کر سکتا ہے، جن کی رُو سے اس دور میں مغربی معاشرہ فرسودگی سے نکلنے کے لئے آب و تاب کے ساتھ متمنّی تھا۔

 

یورپ کی سطح پر عورت ایک گڑیا کی طرح رہ گئی تھی، بلکہ مبالغہ نہ ہو گا اگر کہا جائے کہ سماج میں وہ ایک غلام کی طرح تھی، کئی تحریکیں اس کو اپنے شوہر کی غلامی اور اُس ماحول میں اُسکی پسماندہ صورتحال سے نکالنے کے لئے شروع کی گئیں، چنانچہ ایک یورپی مفکر ڈاکٹر شیگان (بہ حوالہ مسلم میڈیا،بواسطہ کریسنٹ انٹر نیشنل وسط 1948ء) نے مذکورہ سِمت میں بعض مغربی ممالک کے اندر، اُٹھائے گئے چند اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اُس رحجان پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو مذکورہ تحاریک کے نفوذ میں کارفرما رہا، چنانچہ انکا کہنا تھا کہ، ”اس قسم کی آزادی اور اختیار مسلم خواتین کو چند شرائط کے ساتھ پہلے ہی حاصل ہے لیکن جس طریقہ سے اس کا نفاذ، اصلاحی تحاریک کی مناسبت سے یورپ میں کیا جا رہا تھا اس کا قطعی نتیجہ عورت کی نسوانیت کے استحصال کے سِوا کچھ نہ ہو سکتا تھا“ حالانکہ برطانیہ میں اس حوالے سے جو قوانین1870ء اور 1882ء کے دوران نافذ کئے گئے، ان میں اہم حصہ سرمایہ دار طبقہ نے ادا کیا تھا۔

 

متعلقہ ”اعلامیہ“ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عورتوں کو آزادی کے ساتھ کارخانوں، ملوں اور دفتروں میں جا کے پیسہ کمانا چاہئے اور جس طرح وہ چاہیں صرف کریں، اس میں شوہروں کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سماج میں کثرت سے خواتین کارخانوں اور بازاروں میں کام کرنے لگیں، جس کا سب سے زیادہ نفع سرمایہ دار طبقہ نے کمایا، اسی طرح اٹلی میں 1919ء تک عورت شوہر کی نوکرانی کی طرح ہوتی تھی۔ تقریباً یہی حالات جرمنی میں بھی 19 ویں صدی کے آواخر تک تھے، البتہ سویڈن میں یہ حالت1907ء تک رہی، جبکہ فرانس میں 1939ء تک اس قسم کی پائی جانے والی صورتحال میں تبدیلیاں رونما نہ ہوئیں، چنانچہ مذکورہ تبدیلیوں کے بعد خواتین زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ٹوہ میں رہیں، اکثر یورپی ممالک کے اندر سرعت کے ساتھ شرم و حیا اور مہرو وفا کے اقدار روزافزوں ماند پڑتے گئے ۔



1 2 next