دنیا کا مستقبل نظم وعدل کی اساس پر



دنیا کا مستقبل نظم وعدل کی اساس پر

Û²Û”  Ø§Ù“یا جہان حرج ومرج اور بے نظمی Ú©ÛŒ طرف جارہا ہے یا نظم  Ú©ÛŒ طرف، حرج ومرج اور افراتفری توقابل پیش بینی ہی نہیں ہے اس لئے کہ جس چیز Ú©ÛŒ کوئی حدبندی نہ ہو وہ موضوع بحث واقع نہیں ہوتی ہے نظم یا حق وعد Ù„ کےمحورومدارپرہے یا ظلم وجبر Ú©ÛŒ Ú†Ú©ÛŒ میں جیسے آمریت، دوسروں Ú©ÛŒ محنت سے فائدہ اٹھانا، دوسروں Ú©Ùˆ غلام بنانا وغیرہ، ان سارے تسلطہ پسندنظاموں میں سے کوئی نظام بھی ان افراد Ú©Û’ لئے قابل قبول نہیں ہوگا جو نظام خلقت سے آگاہی رکھتے ہیں کیونکہ جب کائنات کا آغاز حق سے ہوا ہے تو اس کا انجام بھی حق پر ہوگا۔

حق وعدل پر مبنی نظم جو بہت سے صاحباں فکر ونظر کی آرزو اورامیدہے، اس کے بہت سے جلوے ہیں کہ ان میں بعض عدل کے لباس میں ظلم ہے اور حق کے نام پر باطل، اس لئے کہ اس طرح کی لفظیں مفہوم کے لحاظ معلوم بھی ہیں اور مطلوب بھی لیکن حقیقت عینی کے اعتبار سے مجہول،خوفناک اور منفور ہیں۔

مار کسیزم Ú©Û’ الحادی نظام Ù†Û’ معاشرہ Ú©Ùˆ اپنےباطل اور ظالمانہ مقاصد Ú©ÛŒ طرف حرکت دی، حالانکہ یہ اپنے زعم ناقص میں، حق مدار ہے اور عدل Ú©ÛŒ اساس پر بلارہا ہے لیکن ذلیل وخوار ہواکیونکہ مستقبل ماضی Ú©Û’ درخت کا Ù¾Ú¾Ù„ ہے، جو شخص، انسان Ú©ÛŒ خلقت Ú©Û’ آغاز کوفقط مادی تصور کرتا ہے اس Ú©Û’ انجام Ú©Ùˆ بھی خود وہی تشخیص دے گا چونکہ ایسا شخص نہ تو “ھوالاول” اور نہ ”ھوالآخر” کاعقیدہ  رکھتا ہے۔

دنیا کا مستقبل الٰہی اور عدل محور منجی کے ذریعہ زندہ ومنظم ہوگا

Û³Û” الٰہی موحّدین Ú©ÛŒ نگاہ میں، جہان اور انسان Ú©ÛŒ تخلیق کا خاکہ اور ان  دونوں کا باہمی تعلق حق Ú©ÛŒ اساس پر قائم ہے اور اس مبارک مثلث میں کسی بھی ضلع سے باطل Ú©Û’ نفوذ کا راستہ نہیں ہے۔قرآن حکیم Ú©ÛŒ متعدد آیات اس مطلب پر دلالت کر رہی ہیں کہ نظام ہستی حق محور ہے اور باطل پانی Ú©ÛŒ جھاگ Ú©ÛŒ مانند ہے جس Ú©ÛŒ بقاء زیادہ دیر تک نہیں رہتی ہے۔

وہ اس حق مداری کی تفسیر کرے گا جواسے خلقت عالم وآدم کا ہندسہ قرار دے گا، اور وہ اس حق‌محوری کی حمایت کرے گا جو اسےنظام کائنات‌کے تیار کرنے کا مصالحہ‌قرار دے گا۔ اور وہ اس حق مداری کو عملی جامہ پہنائے گا کہ جس نے اسے پرہیزگاروں کی جزا اور گناہ گاروں کی سزا کا ضامن سمجھا ہے۔

خدائے سبحان کہ جو اس مجموعہ کا محافظ ہے،اس نے اپنے اختتامی پیغام میں واضح کیا ہے کہ وہ دنیا کو اپنے عدل مدار منجی کے ذریعہ زندہ کرے گا۔ اور اس کو مبارک وجود، کامل، معصوم انسان، حضرت خاتم الاو صیا، والاولیاء، مہدی موعود موجود (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) سے نظم بخشے گا۔

عالمی عدل اورمنجی موعود کا انتظار

Û´Û” جو لوگ معتقد ہیں کہ دنیا کا مستقبل حق مدار اور عدل محور ہے لیکن ان کا تصور ہے کہ یہ حق مداری ڈیمو کریسی نظام میں مضمر ہے چنانچہ فرض کر لیا جائے کہ اس کی‌ساری تعلیماتِ‌حق اور سارے اھداف  عدل Ú©Û’ مطابق ہیں، پھر بھی مہدویت کا عقیدہ خواہ شخصی ہویا نوعی[1]ØŒ ان سے مربوط نہیں ہے کیونکہ ان Ú©ÛŒ نگاہ میں سماج اور معاشرہ Ú©Ùˆ نجات دینے والی شئی سب Ú©ÛŒ عقل ہے نہ کوئی شخص، تا کہ کہا جائے کہ وہ شخص، معین وموعود عینی ہے یا نوعی (مگر یہ کہ مہدویت نوعی Ú©Ùˆ اس طرح تفسیر کریں کہ ایک گروہ Ú©ÛŒ حکومت Ú©Ùˆ بھی شامل ہو جائے) کیونکہ لوگوں پر لوگوں Ú©ÛŒ حکومت کا امام مہدی Ø‘ Ú©ÛŒ حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس صرف عالمی عدالت Ú©Û’ انتظار کرنے کا لازمہ، یہ نہیں ہے کہ  مہدی موعود Ú©Ùˆ قبول کیاجائے  خوا ہ وہ مہدی موعود  نوعی ہی کیوں نہ ہو۔

حکومت امام مہدی (عجل اللہ فرجہ الشریف) کے سایہ تلے حق محوری اور عدل مداری کا مستقبل

ÛµÛ” جو شخص معتقد ہے کہ مستقبل حق محور ہے اور حق مداری کوایک فر د Ú©Û’ نظام حکومت میں جستجو کرتا ہے اور اسکی فردی حکومت Ú©ÛŒ اساس Ú©Ùˆ قانون الٰہی قرار دیتا ہے کہ جو فطرت انسانی سے ہماہنگ ہے، نہ کوئی شخصی رایٔ کو، ایسا عقیدہ رکھنے والے Ú©Ú†Ú¾ حد تک مہدی موعود  Ú©Û’ وجود مبار Ú© Ú©Ùˆ قبول کرسکتے ہیں اگرچہ مہدی موعود Ú©Û’ شخصی یا نوعی ہونے میں تامل سے کام لیں گے۔فردی حکومت اور گروہی حکومت Ú©ÛŒ روش میں اختلاف Ú©Ùˆ تہذیب وتمدن پرگفتگو سے تجزیہ کیا جائے گا اور مہدویت سے متعلق شخصی ونوعی اختلاف، الٰہی مکتب Ú©Û’ پابند لوگوں اور دینی رہنماؤں Ú©Û’ روح بخش پیغامات پر اطمینان وبھروسہ‌کرنے والوں سے گفتگو میں بحث ہوتا ہے۔ بہر حال ہر دو میدان میں مختلف آراء کا مطرح ہونا ثمر بخش ہے۔

مہدویت شخصی کو ثابت کرنے میں عقل ونقل کاکردار

۶۔ مہدویت شخصی کو صرف عقل سے ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ حکمت وکلام کی ذمہ‌داری، قیادت کے کلی خطوط، اوصاف، شرائط اور ان کے پروگراموں کو بیان کرنا ہے،اس کی ذمہ داری، کسی خاص مقام ومنصب کو کسی مخصوص شخص کے لئے ثابت کرنا نہیں ہے۔جیسا کہ فقہ میں بھی، مرجع تقلیدکی ضرورت اور پھر اس کے اوصاف وشرایط بیان ہوتی ہیں، لیکن فلان معین شخص کی مرجعیت سب سے پہلے اہل حل وعقد تعین کرتے ہیں اور دوسری بار لوگوں کا اس شخص معین کی طرف رجوع کرنا، اس کی مرجعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

 



1