سید الشہداء(ع) کی شخصیت

مولانا سید جواد نقوی


سید الشہداء(ع) کی شخصیت ولادت سے لے کر شہادت تک جن عناصر سے تشکیل پائی، سید الشہداء (ع)کی شخصیت میں ایک بہت عالی جلوہ قوت دافعہ سید الشہداء(ع) ہے ۔ جاذبہ سید الشہداء یہ تھا کہ72 تن نے ، البتہ مشہور 72 ہیں ورنہ روایات میں 136 اور بعضوں نے 156 تک اور بعضوں نے 160 تک ذکر کی ہے، مگر بہرحال 100 سے اوپر ہے، لیکن معروف 72 شخصیتیں ہیں ۔ یہ 100 یا 72 انسان یہ حسین(ع) پر جان دیتے ہیں اور 72 ہزار انسان حسین(ع) اور ان کی جان لینے کے لئے آئے ہیں ۔ یہ دونوں حسین(ع) نے خود جمع کئے ہیں ۔

 

ایک کو اپنے جاذبہ سے کھینچا اور ایک کو اپنے دافعہ سے اپنے مقابلے میں لے آئے ۔ بے خاصیت اور بے تاثیر عناصر نے درمیانی راستہ ایک درمیانی راستہ مدینہ سے سید الشہداء (ع)کو بتانا شروع کیا ، سیاسی راح حل ، حکمت کا راستہ، دانائی کا راستہ ، سمجھداری کا راستہ امام حسین(ع) کو بتانا شروع کیا ۔ بہت سارے لوگوں نے بتایا، حتی اپنے نے بھائی بتایا۔۔محمد ابن حنفیہ نے بتایا کہ آپ مکہ میں پناہ لے لیں ۔ اگر مکہ نا امن ہو جائے تو یمن میں پناہ لے لیں ، یمن نا امن ہو جائے تو صحرا ؤں اور غاروں میں پناہ لے لیں اور جب تک یزید کی موت کی خبر نہیں آ جاتی اپ پہنان چھپے رہیں اور مخفی رہیں کہ بالآخر ایک دن تو اس نے بیماری سے مر ہی جانا ہے ۔ بس آپ اس کی موت کا انتظار کریں اور جب قضائے الہی سے مر جائے تب آپ غاروں سے باہر نکل کر امامت کریں ۔ یہ حسین(ع) کو انکے بھائی نے راستہ بتا یا۔

 

دوسرےبھائی خبردار کر رہے تھے کہ میں نے امام حسن(ع) سے ایک جملہ سنا تھا اور آپکے اس فیصلے سے مجھے یاد آرہا ہے ۔ امام حسین(ع) نے فرمایا کہ میں پوری بات بتا دیتا ہوں کہ تجھ سے پہلے مجھے بتایا گیا ہے ۔ مجھے بابا نے بتایا اور بابا کو نانا رسول اللہؐ نے بتایا ہے،یہی بات کہ حسین کو مار دیا جائے گا۔ تصدیق کی کہ ہاں ہی بتایا گیا ہے مجھے، کہ حسین(ع) کو مار دیا جائے گا اور قتل کر دیا جائے گا۔ امام حسین(ع) نے فرمایا کہ مجھے تجھ سے پہلے بتا دیا گیا تھا، کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مجھےبابا نے یہ بھی بتایا ہے کہ میری آل اور اولاد میں سے میرے مزار سے نزدیک ترین قبر اور مزار حسین تیرا ہوگا ۔ باقی سب کا دور ہوگا، مگر تو مجھ سے قریب ترین جگہ مدفون ہوگا۔آپ دیکھیں کہ کربلا اور نجف بہت قریب ہیں ۔

 

مشاورین، دانا اور بڑے سمجھ دار لوگ سیاسی اور اعلی بصیرت رکھنےوالے مکہ میں آئے جن میں ایک بڑی شخصیت عبد اللہ ابن عباسؒ جن کی بہت سمجھدار شخصیت تھی ، عبد اللہ ابن عمر ، عبداللہ ابن زبیر ۔ یہ تمام لوگ آئے اور آکر سید الشہداء(ع) کو بتایا کہ یہ یزید اور بنو امیہ کا خاندان بہت ہی منحوس ہے اورآپ یزید اور انکے شر سے بچ جائیں ۔ان اعلی شخصیات نے بھی بیعت نہیں کی تھی ۔ کہا کہ ہم نے بیعت بھی نہیں کی ، محفوظ بھی ہیں اور راستہ اور راہ موجود ہے کہ اپ حکومت کی بیعت بھی نہ کریں اور حکومت سے ٹکر بھی نہ لیں ۔ الجھیں بھی نہیں اور خاموش زندگی اختیار کریں ۔ کیا راستہ ہے؟ راستہ ہے مصلی اور تسبیح کا ، حجرا ، ذکر و ورد اور عبادت یہ نجات کا راستہ ہے ۔ نہ اس طاغوت کے ہاتھ پر بیعت کریں اور نہ اس سے ٹکر لیں ۔

 

سید الشہداء(ع) نے یہ ساری باتیں سنیں اور ساری باتیں سن کر فیصلہ کیا ، اے لوگوں میں کل جا رہا ہوں اور آگاہ کر کے جا رہا ہوں کہ اس راہ پر جا رہا ہوں کہ جو میرے ساتھ آئے گا مارا جائے گا۔ اور لوگوں کو یہ کہا کہ تُف ہو اس طرز تفکر پر ،اس سوچ پر اور اس راہ پر ۔۔ مجھے تم بتا رہے ہو کہ میں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کر لوں اور باطل سے لا تعلق ہو جاؤں ، میں اپنی جان بچانے کی فکر میں رہوں ۔ بس یہ دافعہ جو خد ا نے میرے اندر رکھا ہے یہ کس لئے ہے ؟ چھپ جانے کے لئے ؟ یہ دشمن تراشی اور یہ راستہ سید الشہداء(ع) نے انتخاب کیا اور اس تفکر کی مذمت کی ۔

 



1