امام حسین علیہ السلام کی سرزنش اور عمر بن سعد کا انجام



امام حسین علیہ السلام کی سرزنش اور عمر بن سعد کا انجام

 

امام حسین نے اتمام حجت کے عنوان سے دو بار عمر بن سعد سے ملاقات کی اور بہت سی نصیحت فرمائی، حتیٰ کہ اس سے وعدہ کیا کہ اس ہدایت کو قبول کرنے سے اسے جو نقصان ہو، امام اسے پورا کریں گے۔ امام چاہتے تھے کہ انہی طریقوں سے اسے ہدایت کا راستہ دکھائیں گے تاکہ یہ ہولناک ترین جنایت کا مرتکب نہ ہو اور دنیا و آخرت کی بدبختی میں گرفتار نہ ہو جائے۔ لیکن حکومت و ریاست کی لالچ اور جب جاہ کی آرزو نے عمر بن سعد کو اس طرح قبضہ میں لے رکھا تھا اور اس کے اختیار کو اس طرح اس سے چھین رکھا تھا کہ دونوں بار اس نے امام سے منفی رویہ روا رکھا اور ان تمام نصیحتوں سے اس نے کوئی نتیجہ حاصل نہ کیا یہاں تک کہ پہلی ملاقات میں بالآخر امام نے اسے یوں بد دعا دی:

 ï´¿Ø°Ø¨Ø­Ú© اللہ علی فراشک﴾ خدا تم پر ایسا شخص مسلط کرے جو تمہاے بشر میں ہی تمہارا سر تن سے جدا کر دے اور خدا تجھے قیامت میں نہ بخشے اور میں امید رکھتا ہوں کہ عراق Ú©ÛŒ گندم تجھے بہت Ú©Ù… نصیب ہو!“ Û± اس ملاقات میں امام دیکھتے ہیں کہ وعظ Ùˆ نصیحت کا اس پر کوئی اثر نہیں اور یہ حملہ کرنے Ú©Û’ لئے تیار ہے۔

 ÙØ±Ù…اتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ تجھے ریاست اور گورنری نصیب نہیں ہوگی، دنیا Ùˆ آخرت میں خوشی بھی تجھے نصیب نہیں ہوگی۔ اب ایک سرسری نظر میں واقعہٴ عاشورا Ú©Û’ بعد عمر بن سعد Ú©Û’ انجام پر نظر ڈالیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ امام Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ سرزنش فرمائی تھی وہ کس طرح وقوع پذیر ہوتی ہے اور جتنی مدت وہ واقعہٴ کربلا Ú©Û’ بعد زندہ رہا خوشی کا کوئی دن اسے نصیب نہیں ہوتا اور اس Ú©ÛŒ موت بھی نہ صرف یہ کہ طبیعی صورت میں نہ تھی عین امام Ú©ÛŒ بد دعا Ú©Û’ مطابق اس Ú©Û’ ذبحہ Ú©ÛŒ صورت میں اس Ú©Û’ گھر Ú©Û’ اندر بستر میں انجام پاتی ہے۔ واقعہٴ کربلا Ú©Û’ بعد بلا فاصلہ عمر بن سعد Ú©ÛŒ ذلت Ùˆ بدبختی کا دور شروع ہو جاتا ہے اس لئے کہ جب وہ اس آرا Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر کوفہ میں وارد وہتا ہے تو عمر سعد Ú©Ùˆ اپنا کارنامہ سنانے Ú©Û’ لئے تو ابن زیاد Ú©Ùˆ اپنا کارنامہ سنانے Ú©ÛŒ غرض سے اس Ú©Û’ پاس جاتا ہے،

اس کی تمام رپورٹ سن کر اسے کہتا ہے کہ اب وہ حکم نامہ جو حسین کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے میں نے تجھے دیا تھا وہ مجھے واپس پلٹا دو۔ عمر سعد بہانہ کرتا ہے کہ یہ فرمان جنگ کے ہنگامہ میں اس سے گم ہوگیا ہے اور اس کے پاس نہیں، لیکن جب ابن زیاد بہت اسرار کرتا ہے تو عمر سعد کہتا ہے کہ اے امیر کیوں اتنا اسرار کر رہے ہو؟ میں نے تمہارے حکم و فرمان کی اطاعت کی اور حسین اور اس کے رفقاء کو قتل کیا ہے۔ اب کم از کم یہ حکم نامہ تو میرے پاس رہنے دو، تاکہ میں مدینہ اور دوسرے شہروں میں لوگوں کے طعن و تشنیع کے جواب میں اسے دکھا سکوں اور اپنا عذر بحال کروں۔ سبط ابن جوزی نقل کرتا ہے کہ ابن زیاد اس جواب سے سخت برآشتہ ہوا اور دونوں میں تلخ کلامی بڑھی،

 ÛŒÛØ§Úº تک کہ جب عمر ابن سعد دار الامارہ سے Ù†Ú©Ù„ کر باہر Ú©ÛŒ طرف جا رہا تھا تو کہہ رہا تھا کہ میں Ù†Û’ کوئی مسافر ایسا نہیں دیکھا جو میری طرح خالی ہاتھ بدبختی اور ذلت Ú©Û’ ساتھ اپنے گھر Ú©ÛŒ طرف پلٹ رہا ہو کہ میں Ù†Û’ دنیا بھی اپنے ہاتھ سے گنوائی اور آخرت بھی۔ اس واقعے Ú©Û’ بعد عمر ابن سعد اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے کیونکہ ابن زیاد کا بھی معتوب قرار پا چکا تھا اور کوفہ Ú©Û’ تمام لوگوں Ú©Û’ لئے قابل نفرت بھی بن چکا تھا۔ جب بھی وہ مسجد میں جاتا تو لوگ اس سے دور ہٹ جاتے یا جب بھی وہ گلیوں اور بازاروں میں نکلتا تو مرد Ùˆ عورت، بچے بوڑھے سارے اس پر لعن طعن کرتے اور ایک دوسرے سے کہتے کہ دیکھو

﴿ھذا قاتل الحسین﴾ یہ وہ بدبخت جا رہا ہے جس نے حسین کا قتل کیا ہے۔ بالآخر سنہ ۶۵ ہجری یعنی واقعہٴ عاشورا شہادت امام حسین کے پانچ سال بعد مختار ثقفی کے حکم کے مطابق قتل کرایا جاتا ہے۔ کتب تواریخ میں اس کی تفصیل درج ہے اجمالاً ہم تھوڑا سا ذکر کرتے ہیں۔ مختار نے عمر بن سعد کو قتل کرنے کا عزم کیا، اور کہا: میں بہت جلد ان ان صفات کے حامل شخص کو قتل کروں گا کہ جس کا قتل زمین و آسمان اور اس کے مکان(رہنے والوں) کے لئے خوشنودی کا باعث ہوگا۔ حصین نامی ایک شخص اس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا وہ مختار کی بات سمجھ گیا اور اپنے بیٹے عریان کو عمر ابن سعد کے پاس بھیجا اور اسے خبردار کر دیا۔ دوسرے دن عمر سعد اپنے بیٹے حفص جوکہ جنگ ِ کربلا میں بھی اس کے ساتھ تھا، مختار کے پاس بھیجا تاکہ اس کے ساتھ گفتگو کرے۔ حفص جب مختار کے پاس پہنچا تو مختار نے اپنے ایک فوجی افسر کو جس کا نام کیسان تمار تھا مخفیانہ طور پر اپنے پاس بلایا اور ساے حکم دیا کہ ابھی تم عمر سعد کے پاس جاؤ وار اس کا سر تن سے جدا کرکے میرے پاس لے آؤ۔

 Ø§Ø¨Ù† قتیبہ کہتا ہے کہ کیسان مختار Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… سے عمر بن سعد Ú©Û’ گھر میں داخل ہوا اور دیکھا کہ وہ بستر میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب اس Ù†Û’ کیسان کا حشرناک اور غضب آلود چہرہ دیکھا تو اپنی موت کا یقین کر لیا اور چاہا کہ اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگے لیکن لحاف میں اس کا پاؤں پھنس گیا اور وہ بستر Ú©Û’ اوپر ہی گر گیا اور کیسان Ù†Û’ بغیر کوئی مہلت دیئے اسے وہیں قتل کر دیا اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا اور یوں اس Ú©ÛŒ زندگی کا آخری ذلت آمیز ورق اور ننگین باپ ختم ہوا۔ ﴿فقام الیہ ÙˆÚ¾Ùˆ ملتحف۔۔۔﴾ کیسان جب عمر سعد کا منحوس سر Ù„Û’ کر مختار Ú©Û’ پاس آیا تو مختار Ù†Û’ عمر Ú©Û’ بیٹے حفص Ú©Ùˆ خطاب کرکے کہا: اس Ú©Ù¹Û’ سر Ú©Û’ مالک Ú©Ùˆ جانتے ہو؟ اس Ù†Û’ کہا: ہاں۔ اور اس Ú©Û’ بعد زندگی میں کوئی بھلائی نہیں۔

 Ù…ختار Ù†Û’ کہا: ”ہاں تیرے لئے واقعاً زندگی فائدہ مند نہیں رہی“۔ اور Ø­Ú©Ù… دیا کہ حفص کا سر بھی تن سے جدا کرکے اس Ú©Û’ باپ Ú©Û’ سر Ú©Û’ ساتھ رکھ دیا جائے۔ اس Ú©Û’ بعد مختار Ù†Û’ کہا: عمر سعد کا سر حسین Ú©Û’ بدلے اور حفص کا سر علی اکبر Ú©Û’ بدلے، لیکن فوراً اپنے جملے Ú©ÛŒ تردید کرتے ہوئے کہنے لگا: ”ہرگز نہیں!



1