خطبات امام حسین علیہ السلام



خطبات امام حسین علیہ السلام

 

سخنان حسین بن علی علیھماالسلام

خطبات یا فضائل حسین ابن علی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلاٰمُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہِ مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الَّذِیْنَ اَذْھَبَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَ طَھَّرَھُمْ تَطْھِیْرًا۔ مدینے کے گورنر سے خطاب اَیُّھَا الْأَمیرِ اِنّٰا اَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ وَ مَعْدِنُ الرِّسٰالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلاٰئِکَةِ وَ مَھْبَطُ الرَّحْمَةِ بِنٰا فَتَحَ اللّٰہُ وَ بِنٰا یَخْتِمُ، وَ یَزِیْدُ رَجُلٌ شٰارِبُ الْخَمْرِ وَ قٰاتِلُ النَّفْسِ الْمُحْتَرَمَةِ مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ وَ مِثْلی لاٰ یُبٰایِعُ مِثْلَہُ وَلٰکِنْ نُصْبِحُ وَ تُصْبِحُونَ وَ نَنْظُرُ وَ تَنْظُرُوْنَ اَیُّنٰا اَحَقُّ بِالْخِلاٰفَةِ وَ الْبَیْعَةِ۔

 Ø®Ø·Ø¨Ø§Øª یا فضائل حسین ابن علی حضرت امام حسینں Ú©Û’ خطبات Ú©ÛŒ وضاحت سے پہلے اس نکتے Ú©ÛŒ طرف اشارہ ضروری ہے کہ کسی مقدس Ùˆ بزرگوار شخصیت Ú©ÛŒ زندگی اور شہادت Ú©Û’ بارے میں جب بھی کوئی کتاب Ù„Ú©Ú¾ÛŒ جاتی ہے تو پہلے اس Ú©Û’ فضائل اور اس Ú©ÛŒ مذہبی Ùˆ معاشرتی زندگی Ú©Û’ حالات پر مشتمل احادیث Ùˆ روایات نقل Ú©ÛŒ جاتی ہیں لیکن ہم Ù†Û’ اس کتاب میں مذکورہ روش سے ہٹ کر شروع ہی سے اصل موضوع (امام حسین علیہ السلام Ú©Û’ خطبات Ùˆ فرامین) Ú©Ùˆ اختیار کیا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ کتاب کا آغاز حضرت امام حسینں Ú©Û’ واضح ترین فضائل ﴿اِنّٰا اَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ ÙˆÙŽ مَعْدِنُ الرِّسٰالَةِ﴾ اور اختتام آپ Ú©ÛŒ ایک خوبصورت مناجات ﴿اَللّٰھُمَّ مُتَعَالِی الْمَکَانِ عَظِیْمُ الْجَبَرُوْتِ﴾ سے ہوتا ہے بلکہ اس کتاب کا ہر ورق اہل دل اور اہل یقین Ùˆ معرفت Ú©Û’ لئے حضرت امام حسینں Ú©Û’ ایک دلنشین سخن پر مشتمل ہے اور اس کا ہر صفحہ اہل فض Ùˆ دانش Ú©Û’ لئے امام Ú©ÛŒ شخصیت Ùˆ عظمت Ú©Ùˆ اجاگر کرنے والی ایک کتاب Ú©ÛŒ حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اگر ہم اس کتاب کا نام ”سخنانِ حسین ابن علی “ Ú©ÛŒ بجائے ”فضائل حسین ابن علی “ رکھ دیں تو بے جا نہ ہوگا۔

کلام امام کی وضاحت ۶۰ ء ہجری کے ماہ ِ رجب میں معاویہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے یزید نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور بلا تاخیر اپنی مملکت کے تمام گورنروں اور وزراء کو خطوط لکھے اور انہیں باپ کی موت اور اپنی جانشینی کی اطلاع دی جس کے لئے اس کے باپ نے اپنی زندگی میں ہی لوگوں سے بیعت لے لی تھی۔ نیز انہیں اپنے عہدو پر برقرار رکھتے ہوئے حکم صادر کیا کہ وہ لوگوں سے دوبارہ اس کے لئے بیعت لیں۔ مدینے کے گورنر ولید بن عتبہ کو ایک مزید خصوصی مختصر سا خط بھی لکھا کہ مدینے کی تین معروف شخصیات سے ضرور بیعت لی جائے کیونکہ انہوں نے معاویہ کے دور میں بیعت ِ یزید سے انکار کر دیا تھا۔ اس خصوصی حکم نامے میں یزید نے لکھا: ﴿خُذِ الْحُسَیْنَ وَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمََر وَ عَبْدَ اللهِ ابْنَ زُبَیْرٍ اَخْذًا شَدیدًا لَیْسَتْ فیہِ رُخْصَةٌ حَتّٰی یُبٰایِعُوا وَ السَّلامُ﴾

 (حسین ØŒ عبد الله بن عمر اور عبد الله ابن زبیر سے سختی Ú©Û’ ساتھ بیعت لو اور جب تک وہ بیعت نہ کر لیں اس امر میں کسی قسم Ú©ÛŒ نرمی Ú©ÛŒ اجازت نہیں ہے)Û” ولید بن عتبہ Ù†Û’ Ù†Û’ خط ملتے ہی مروان بن الحکم Ú©Ùˆ بلایا اور اس سے مشورہ کیا۔ اس Ù†Û’ رائے دی کہ معاویہ Ú©ÛŒ موت Ú©ÛŒ خبر پھیلنے سے پہلے ان افراد Ú©Ùˆ دربار میں بلا کر ان سے بیعت طلب کرو چنانچہ ولید Ù†Û’ اسی وقت ان حضرات Ú©ÛŒ طرف اپنا آدمی بھیجا۔ اس Ù†Û’ آکر انہیں کہا کہ ولید Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ ایک انتہائی حساس اور اہم مسئلے پر مشورہ کرنے Ú©Û’ لئے بلایا ہے۔ حضرت امام حسینں اور ابن زبیر مسجد نبوی میں مصروفِ گفتگو تھے کہ ولید کا پیغام ملا۔ ابن زبیر رات Ú©Û’ وقت اس بے موقع بلاوے پر خوفزدہ ہوگیا لیکن امام حسینں Ù†Û’ بڑی متانت Ú©Û’ ساتھ ابن زبیر Ú©Ùˆ تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ﴿اَرٰی اَنَّ طٰاغِیَتَھُمْ قَدْ Ú¾ÙŽÙ„ÙŽÚ©ÙŽï´¾ (میرے خیال میں اس کا بادشاہ فوت ہو چکا ہے اور اس بلاوے کا مقصد یزدی Ú©Û’ لئے بیعت لینا ہے۔)

امام نے اپنے نظریے کی تائید میں مزید فرمایا کہ ”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ معاویہ کے گھر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے ہیں اور اس کا تخت الٹ گیا ہے۔“ پھر امام نے اپنے خاندان کے تیس افراد کو حکم دیا کہ وہ مسلح ہوکر ان کے ساتھ دربار تک چلیں اور گورنر سے گفتگو کے دوران باہر تیار کھڑے رہیں تاکہ ضرورت کے وقت ان کا دفاع کر سکیں۔ امام کی پیشگوئی کے عین مطابق ولید نے آپ کو معاویہ کی موت کی اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ یزید کے لئے بیعت طلب کی۔ امام نے جواب میں فرمایا: ”مجھ جیسی شخصیت کو مخفی طور پر بیعت نہیں کرنی چاہیئے اور تمہیں بھی ایسی بیعت پرا راضی نہیں ہونا چاہیئے چونکہ تم نے مدینے کے تمام افراد کو تجدید بیعت کے لئے بلانا ہے ہم نے بھی اگر بیعت کا فیصلہ کر لیا تو سب لوگوں کے ساتھ مل کر بیعت کر لیں گے“۔ یعنی یہ بیعت خوشنودیٴ خدا کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے لی جا رہی ہے.

 Ù„ہٰذا اس کا انعقاد اعلانیہ طور پر ہونا چاہیئے نہ کر مخفیانہ طریقے سے۔ ولید Ù†Û’ امام Ú©Û’ اس نقطہٴ نظر سے اتفاق کیا اور رات Ú©Û’ وقت اس طرح بیعت لینے پر اصرار نہ کیا۔ جب امام دربار سے باہر نکلنے Ú©Û’ لئے اٹھے تو مروان بن Ø­Ú©Ù… Ù†Û’ (جو وہاں بیٹھا ہوا تھا) اشارے سے ولید Ú©Ùˆ یہ بات سمجھانے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ کہ اگر تم اس موقع پر حسین سے بیعت نہ Ù„Û’ سکے تو پھر تمہیں بیعت حاصل کرنے Ú©Û’ لئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا Ù¾Ú‘Û’ گا اور شاید خونریزی Ú©ÛŒ بھی نوبت آجائے۔ بس بہتر یہ ہے کہ تم انہیں اسی دربار میں ٹھہرائے رکھو یہاں تک کہ بیعت کر لیں یا پھر یزید Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… Ú©Û’ مطابق تم انہیں قتل کر دو۔ امام Ù†Û’ جب مروان کا یہ اشارہ دیکھا تو فوراً خشمناک ہوکر فرمانے Ù„Ú¯Û’: ”زرقا Ú©Û’ بیٹے! تم جھوٹ بولتے ہو اور گناہ Ú©Û’ مرتکب ہو۔ یہ تمہاری خام خیالی ہے کہ مجھے قتل کر سکو“۔ اس Ú©Û’ بعد امام Ù†Û’ ولید سے مخاطب ہوکر فرمایا: ﴿اَیُّھَا الْأَمیرِ اِنّٰا اَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ﴾



1