کیا امام حسین علیہ السلام واقعاً مدینہ پلٹ جاتے



 

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت حر کے سپاہی جو اہل کوفہ تھے امام کے جواب میں اپنی پشیمانی اور ندامت کا اظہار کرتے تو کیا واقعاً امام واپس مدینہ پلٹ جاتے اور اس مصمم جدوجہد سے ہاتھ کھینچ لیتے۔ اس سوال کا جواب خود امام حسین کے اس کلام سے ظاہر ہے جو انہوں نے منزل شراف پر ارشاد فرمایا۔ اس لئے کہ امام کی ان دونوں تقریروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام صرف اتمام حجت کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ لوگ بعد میں کسی قسم کا بہانہ یا عذر نہ تراش سکیں اور اس حقیقت کو امام نے بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ ﴿انہا معذرة الی اللہ و الیکم﴾ یعنی میرا یہ کلام، میری یہ باتیں تم لوگوں پر اتمام حجت ہیں وار خدا کے نزدیک میں ان باتوں کے ذریعے اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں۔

 

 Ø§Ù…ام حسین علیہ السلام اپنی اس بیان سے یہ بات سمجھانا چاہتے تھے کہ کوفہ Ú©Û’ لوگو! میں تمہارے شہر Ú©ÛŒ طرف حملہ کرنے Ú©Û’ لئے نہیں آرہا بلکہ تم لوگوں Ú©ÛŒ دعوت پر ہی میں Ù†Û’ یہ سفر اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اگر بنو امیہ Ú©Û’ Ú©Ù¹Ú¾ پتلی حکام میرے اس سفر Ú©Û’ بارے میں غلط افواہیں پھیلا رہے ہیں تو انکی بات جھوٹ اور کذب پر مبنی ہے۔

 

 Ù¾Ú¾Ø± اصل مسئلہ یعنی امام حسین علیہ السلام کا جدوجہد سے ہاتھ روک لینا یا اپنے شہر واپس پلٹ آنا اس مضا میں نہیں ہے کہ اگر کوفہ Ú©Û’ لوگ اپنی دعوت پر پشیمان ہو جائیں تو امام حسین علیہ السلام اپنے گھر واپس آجائیں Ú¯Û’ اور مبارزہ اور یزیدی حکومت سے مسلح جدوجہد سے ہاتھ اٹھا لیں Ú¯Û’ بلکہ امام کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوفہ Ú©Û’ لوگ اپنی دعوت اور ہمکاری Ú©Û’ وعدہ پر پشیمان ہو جائیں اور نصرت سے ہاتھ اٹھا لیں Ú¯Û’ تو ہم بھی اس شہر میں نہیں آئیں Ú¯Û’ لیکن اصل مسئلہ جو یزیدا بن معاویہ Ú©ÛŒ بیعت نہ کرنے بلکہ اس Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ خلاف مسلح جدوجہد کرنا تھا وہ تو اپنی جگہ برقرار رہتا اگرچہ یہ بات خود امام حسین علیہ السلام Ú©Û’ شہادت پر ختم ہوتی۔

 

 Ø¹ÙˆØ§Ù… Ú©ÛŒ نظر یں اگر یہ مبارزہ مسلح جدوجہد کوفہ میں نہیں ہو سکتی تو کسی دوسری جگہ پر تو ممکن ہے۔ اس توضیح کا مقصد ہے کہ اگر امام کا مقصد اس کلام سے Ú©Ú†Ú¾ اور ہو یا اگر اس وقت Ú©ÛŒ حکومت صرف اتنا احساس کر لیتی کہ حسین ابن علی نہ صرف جدوجہد سے منحرف ہو Ú†Ú©Û’ ہیں بلکہ انہوں Ù†Û’ اپنے عزم میں بھی تبدیلی پیدا کر Ù„ÛŒ ہے اور Ø´Ú© Ùˆ تردید Ú©ÛŒ حالت میں واقع ہوگئے ہیں تو وہ کبھی بھی حکومت امام سے نبرد آزما نہ ہوتی اس لئے وہ جانتے تھے کہ امام Ú©Û’ خلاف انا Ú©ÛŒ یہ کاروائی ان Ú©Û’ لئے خطرناک ثابت ہوگی۔

 

 Ø®Ù„اصہ: لشکر یزید Ú©ÛŒ امام سے جنگ اور خونریزی اس بات Ú©ÛŒ دلیل ہے کہ امام اپنے آہنی ارادے سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ امام Ú©Û’ اس آہنی عزم Ú©ÛŒ تصدیق آپ Ú©Û’ ایک ایک جملہ سے ہوتی ہے جو آپ Ù†Û’ مدینہ سے Ù„Û’ کر شہادت Ú©ÛŒ Ú¯Ú¾Ú‘ÛŒ تک متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا۔ وہ حسین ہی تھے جو کہتے تھے : ﴿فَقَتْلُ امْرِءٍ بِالسَّیْفِ فی اللّٰہِ اَفْضَلُ﴾۔۱ حسین یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ: ﴿سَاَمْضی وَمٰا بِالْمَوْتِ عٰارٌ عَلَی الْفَتٰی﴾۔۲ حسین کا فرمان تھا کہ: ﴿ھَیھٰاتَ مِنَّا الذِّلَّةُ﴾۔۳ حسین کہہ رہے تھے :



1