حضرت محمد (ص) يورپ کي نظر ميں (حصه اول)



يہ بات غورطلب ہےکہ يہ افسانے قرون وسطي ميں گھڑے گۓ ہيں اور بعض عيسائي اديبوں نے بھي اس طرح کے افسانے لکھے ہيں ان سے پتہ چلتاہےکہ اس زمانے ميں عيسائي دنيا کو قرآن کي ذرا سي شناخت نہيں تھي اور جيسا کہ معلوم ہے سولہ سو اننچاس سے قبل يورپ ميں قرآن کا ترجمہ نہيں ہواتھا ہرچند بارہويں صدي عيسوي ميں لاطيني زبان ميں قرآن کا ترجمہ ہوچکا تھا-

 

رينيسينس کے بعد ايک دوصديوں ميں بعض توھمات کو دورکرنے کي غرض سے عيسائي دنيا ميں فکري سرگرمياں شروع ہوتي دکھائ ديتي ہيں-اسپين کے ايک پادري جان سگوويائي کا خيال تھا کہ جنگ سے اسلام و عيسائيت کے مابين مسائل حل نہيں ہوسکتے انہوں نے دونوں دينوں کے مابين تنازعات کو حل کرنے کي غرض سے ايک ہسپانوي مسلمان کي مدد سے قرآن کا ترجمہ کروايا جو چودہ سو پينتاليس ميں ان کي موت کے بعد ناپيد ہوگيا دراصل ان کے پادري ساتھيوں نے اسےکہيں چھپا ديا تھا-جان سگوويائي نے ايک جرمن پادري نيکولس کولکھا تھا کہ اسلام اور عيسائيت ميں عداوت و دشمني کے خاتمے نيزان کے درميان دوستي قائم کرنےکے لۓ ايک عالمي نشست کي ضرورت ہے-اس زمانے ميں ايسے بھي لوگ تھے جنہيں اسلام و عيسائيت کے اشتراکات کاعلم تھا مسلمانوں کے ہاتھوں قسطنطنيہ کي تسخير کے وقت پوپ کے عھدے پر فائزآئناس سيلويوس نے ترک بادشاہ سلطان محمدفاتح کولکھا تھا "مسلمانوں اور عيسائيوں کے مابين بہت سے مشترکہ امور ہيں جن پر دونوں مذھب کے پيرووں کا اتفاق ہے ،خداے واحد، خلقت عالم، ايمان کي ضرورت، حيات اخروي، جزاوسزا کا نظام اور روح کا ابدي ہونا ايسے امور ہيں جن پر دونوں مذھبوں کا اتفاق ہے اس کے بعد وہ لکھتے ہيں کہ صرف خدا کي ذات وماھيت کےبارے ميں اسلام وعيسا‎ئيت ميں اختلاف پايا جاتاہے اس کے باوجود پوپ سلطان محمد سے کہتے ہيں کہ وہ عيسائي ہوجائيں-

 

ايک نکتہ جس پر عيسائي سخت حيران تھے يہ تھا کہ مسلمان حضرت مسيح کا بے حد احترام کرتے ہيں ہرچند ان کے صليب پر لٹکاۓ جانے کو تسليم نہيں کرتے،يہ امرعيسائيوں کے نزديک صليب کي اھيمت کے پيش نظر مسلمانوں کي جانب سے حضرت مسيح کے اکرام وتکريم کے اقدام کي اھميت کو کم کر سکتا تھا-

 

قسطنطنيہ پر مسلمانوں کے قبضےکے بعد جو چيزيں عيسائيوں کے درميان رائج ہوئيں وہ ترکوں کي سنگ دلي اور ان کي جنگوں سے عبارت ہيں يورپيوں کي نظر ميں ترکوں کے افعال واعمال اسلام کي تعليمات قرار پاے- ترکوں سے شديد دشمني اس بات کا باعث بني کہ پندرہ سو اٹھاسي ميں کرسٹوفر مارلونے اپنے اشعار ميں ترکوں پر حملہ کرنے کي بناپر تيمورکي تعريف کي ہے اور اپنے ان اشعار ميں تيمورکي زباني ماحومت کو سب وشتم کا نشانہ بنايا ہے وہ اپنے اشعار ميں کہتاہےکہ تيمورنے قرآن کونذرآتش کرنے کا حکم ديا جس کي وجہ سے وہ ايک عيسائي کے روپ ميں ظاہرہوا-

 

قسطنطنيہ کا واقعہ ان واقعات ميں سےہے جن کا زخم اب بھي ہرا ہے اسي بناپر يہ واقعہ عيسائي ڈراموں اور اشعار ميں فراواني سے ديکھا جاسکتاہے يہانتک کہ شيکسپئر کے ڈرامے ھنري پنجم ميں فرانسيسي بادشاہ کي بيٹي کيٹرين سے بادشاہ يہ کہتاہوادکھائي ديتا ہےکہ "آۆہم ايسے بچے کي بنياد رکھيں جو نيم فرانسيسي اور نيم برطانوي ہواور جو قسطنطنيہ جاکرترکوں کا مقابلہ کرے يہ ايسے عالم ميں ہے کہ ہنري پنجم قسطنطنيہ کے سقوط سے تينتيس سال قبل يعني چودہ سو بيس ميں تھے تاہم شيکشپئر کي مذھبي حس اس قدرقوي ہے کہ وہ يا تو اس تاريخي غلطي کي طرف متوجہ نہيں تھے يا اس کو کوئي اھميت نہيں ديتے تھے انہوں نے يہ ڈرامہ سولہ سو عيسوي ميں لکھا تھا -


 

 



back 1 2