شفاعت کے بارے میں اعتراضات و شبھات



جواب:شفاعت کرنے والوں Ú©ÛŒ مھربانی اور ھمدردی بھی خداوندعالم Ú©ÛŒ بے انتھا رحمت Ú©ÛŒ جھلک Ú¾Û’ØŒ دوسرے لفظوں میں، شفاعت وہ وسیلہ اور راہ Ú¾Û’ جسے خداوندعالم Ù†Û’ خود اپنے بندوں Ú©Û’ گناھوں Ú©Ùˆ بخشنے Ú©Û’ لئے قرار دیا Ú¾Û’ اور جیسا کہ اشارہ Ú¾Ùˆ ا کہ اسکی عظیم رحمتوں کا جلوہ اور کرشمہ  اس Ú©Û’ منتخب بندوں میں ظاھر ھوتا Ú¾Û’ اسی طرح دعا اور توبہ بھی وہ ذرائع ھیں جنھیں خداوندعالم Ù†Û’ گناھوں Ú©ÛŒ بخشش اور ضروتوں Ú©Ùˆ پورا کرنے Ú©Û’ لئے قرار دیا Ú¾Û’ØŒ

چوتھا شبہہ: اگر خداوندعالم کا گنہگاروں پرعذاب نازل کرنے کا حکم مقتضاء عدالت ھے تو ان کے لئے شفاعت کا قبول کرنا خلاف عدل ھوگا اور اگر شفاعت کو قبول کرنے کے نتیجہ میں عذاب الھی سے نجات پاناعادلانہ ھے تواس کے معنی یہ ھوئے کہ شفاعت کے انجام پانے سے پھلے عذاب کا حکم، غیر عادلانہ تھا۔

جواب: ھر حکم الٰھی(چاھے شفاعت سے پھلے عذاب کا حکم ھو یاشفاعت کے بعد نجات کا حکم ھو) عدل وحکمت کے مطابق ھے ایک حکم کا عادلانہ اور حکیمانہ ھونا دوسرے حکم کے عادلانہ اور حکیمانہ ھونے سے ناسازگار نھیں ھے،اس لئے کہ اس کاموضوع جداھے۔

وضاحت: عذاب کا حکم ارتکاب گناہ کا تقاضا ھے، ان تقاضوں سے چشم پوشی کرنا ھی گنہگارکے حق میں شفاعت اور قبول شفاعت کے تحقق کا سبب ھوتا ھے، اور عذاب سے نجات کا حکم شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی وجہ سے ھے، یہ موضوع اس طرح ھے کہ بلا کا دعا یا صدقہ دینے سے پھلے مقدر ھونا یا دعا اور صدقہ کے بعد بلا کا ٹل جانا ھی حکیمانہ فعل ھے۔

پانچواں شبہہ: خداوندمتعال نے شیطان کی پیروی کوعذاب دوزخ میں گرفتارھونے کا سبب بتایاھے جیسا کہ سورہ حجر کی ۴۲و۴۳ویں آیہ میں فرماتا ھے:

<إِنَّ عِبَادِی لَیسَ Ù„ÙŽÚ©ÙŽ عَلَیھِم سُلطَانٌ إِلا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الغَاوِینَ .  ÙˆÙŽ إنَّ جَہَنَّمَ لَمَوعِدُھُم اَجمَعِینَ>

جو میرے مخلص بندے ھیں ان پر تجھے کسی طرح کی حکومت نہ ھوگی مگرصرف گمراھوں میں سے جو تیری پیروی کرے اور ھاں ان سب کے واسطے وعدہ بس جھنم ھے۔

 Ø§Ù“خرت میں گنہگاروں پر عذاب نازل کرنا ایک سنت الھی Ú¾Û’ اور سنت الھی غیر قابل تغیر Ú¾Û’ جیسا کہ سورہ فاطرکی ۴۳ویں آیہ میں فرماتا Ú¾Û’ کہ:

<فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبدِیلاً وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحوِیلاً>

ھرگز خدا کی سنت میں تبدیلی نھیں آئیگی اور ھرگز خدا کی سنت میں تغیر نھیں پیدا ھوگاجب یہ بات طے ھے تو کیسے ممکن ھے کہ شفاعت کے ذریعہ خدا کی سنت نقض ھوجائے اور اس میں تغیر پیدا ھو جائے۔

جواب: جس طرح گنہگاروں پر عذاب نازل کرنا ایک سنت Ú¾Û’ اسی طرح واجد شرائط گنہگاروں Ú©Û’ لئے شفاعت قبول کرنا بھی ایک غیر قابل تغیر الٰھی سنت Ú¾Û’ لہٰذا دونوں پر ایک ساتھ توجہ کرنا چاہئیے، خداوندعالم Ú©ÛŒ مختلف سنتیں ایک ساتھ پائی جاتی ھیں ان میں  جس کا معیار Ùˆ اعتبار زیادہ قوی ھوگا وہ دوسرے پر حاکم ھوجاتی Ú¾Û’Û”

چھٹا شبہہ: وعدہ شفاعت، غلط راھوں اور گناھوں کے ارتکاب میں لوگوں کی جرات کا سبب ھوتا ھے۔

جواب: شفاعت ومغفرت ھونا مشروط ھے بعض ایسی شرطوں سے کہ گنہگار اس کے حصول کا یقین پیدا نھیں کرسکتا ھے، شفاعت کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ھے کہ اپنے ایمان کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ رکھے اور ھم جانتے ھیں کہ کوئی بھی ایسی شرط کے تحقق پر یقین(کہ ھمارا ایمان آخری لمحہ تک محفوظ رھے گا)نھیں رکھ سکتا ھے، دوسری طرف جو مرتکب گناہ ھوتا ھے اگر اس کے لئے بخشش کی کوئی امید اور توقع نہ ھو تووہ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ھوجائے گا اور یھی نا امیدی اس میں ترک گناہ کے انگیزے کو ضعیف کردے گی اور آخر کار خطاو انحراف کی طرف مائل ھوجائے گا اسی لئے خدائی مربیوں کا طریقہ تربیت یہ رھاھے کہ وہ ھمیشہ لوگوں کو خوف و امید کے درمیان باقی رکھتے ھیں، نہ ھی رحمت خدا سے اتنا امید وار کرتے ھیں کہ خداوندعالم کے عذاب سے محفوظ ھوجائیں اور نہ ھی ان کو عذاب سے اتنا ڈراتے ھیں کہ وہ رحمت الٰھی سے مایوس ھوجائیں، اور ھمیں معلوم ھے کہ رحمت الٰھی سے مایوس اور محفوظ ھونا گناہ کبیرہ شمار ھوتا ھے،

ساتواں شبہہ: عذاب سے بچنے میں شفاعت کی تاثیر یعنی گنہگار شخص کو بد بختی سے بچانے اور سعادت میں دوسروں(شفاعت کرنے والے) کے فعل کا موثر ھونا ھے، جبکہ سورہ نجم ۳۹ویں آیہ کا تقاضا یہ ھے کہ فقط یہ انسان کی اپنی کوشش ھے جو اسے خوشبخت بناتی ھے۔

جواب: مننرل مقصود کو پانے کے لئے کبھی خود انسان کی کوششھوتی ھے جو آخری منزل تک جاری رہتی ھے اور کبھی مقدمات اور واسطوں کے فراھم کرنے سے انجام پاتی ھے، جو شخص مورد شفاعت قرار پاتا ھے وہ بھی مقدمات سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے، اس لئے کہ ایمان لانا اور استحقاق شفاعت کے شرائط کا حاصل کرنا حصول سعادت کی راہ میں ایک طرح کی کوشش شمار ھوتی ھے، چاھے وہ تلاش ایک ناقص و بے فائدہ کیوں نہ ھو، اسی وجہ سے مدتوں برزخ کی سختیوں اور غموں میں گرفتار ھونے کے بعد انسان میدان محشر میں وارد ھوگا لیکن بھر حال خودھی سعادت کے بیج(یعنی ایمان) کو اپنے زمین دل میں بوئے اور اس کو اپنے اچھے اعمال سے آبیاری کرے اس طرح کہ اپنی عمر کے آخری لمحات تک خشک نہ ھونے دے تویہ اس کی انتھائی سعادت و خوشبختی ھے جو خود اسی کی تلاش و کوشش کا نتیجہ ھے، اگر چہ شفاعت کرنے والے بھی ایک طرح سے اس درخت کے ثمر بخش ھونے میں موثر ھیں جس طرح اس دنیا میں بھی بعض لوگ بعض دوسرے افراد کی تربیت و ھدایت میں موثر واقع ھوتے ھیں لیکن ان کی یہ تاثیر اس شخص کے تلاش و جستجو کی نفی کا معنی نھیں دیتی ھے،[1]

 



[1] ملاحظہ ھو: محمد تقی مصباح ؛ آموزش عقاید ؛ ج۳ سازمان تبلیغات، تھران ۱۳۷۰۔



back 1 2