کمال نھائی کی حقیقت



یھی لوگ اپنے پروردگار کی ھدایت پر ھیں اور یھی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے

< وَ اَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیھَا>

     اور جو لوگ نیک بخت ھیں وہ تو بھشت میں Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’Û”[3]

قرآن مذکورہ مفاھیم کے نقطہ مقابل کو ناکامی:<إِنَّہُ لا یُفلِحُ الظَّالِمُونَ>[4](اس میں تو کوئی شک ھی نھیں کہ ظالم لوگ کامیاب نھیں ھوںگے)ناامیدی اور محرومی:<وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰھَا>(اور یقینا جس نے اسے بنا دیا وہ نامراد رھا) شقاوت اور بد بختی سے تعبیر کرتا ھے:<فَاَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ لَھُم فِیھَا زَفِیرٌ وَشَھِیقٌ>[5](تو جو لوگ بدبخت ھیں وہ دوزخ میں ھوں گے اور اسی میں ان کی ھائے وائے اور چیخ پکار ھوگی)

گذشتہ مطالب کی روشنی میں معلوم کیا جاسکتا ھے کہ انسان کی توانائیوں میں سے ھر ایک کو کمال اور فعلیت کے مرحلہ میں پھونچنے کے لئے فقط اتنی ھی مقدار معتبر ھے جس میں ایجاد کمال نیز دائمی اورلازوال کمال کے تحقق کے اسباب فراھم ھوسکیں اور کمال نھائی کے حصول کا مقدمہ بن سکیں، دوسرے لفظوں میں ان کا رشد وکمال ایک مقدمہ ھے اور اگرمقدماتی پھلو کا فقدان ھوجائے توانسان اپنی مطلوبیت اور اعتبار کو کھودیتا ھے۔



[1] سورہ احزاب ۷۱۔

[2] سورہ بقرہ ۵۔

[3] سورہ ھود ۱۰۸۔

[4] سورہ قصص ۳۷۔

[5] سورہ ھود/ ۱۰۶



back 1 2