اسوه حسينی



محبت، بڑے سے بڑا کام جو طبیعت پر گراں گزرتا ہو، محبت کے واسطہ سے لیا جائے تو وہ آسان معلوم ہو گا۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی باتوں کو مانتا ہے اور اس کے اقوال پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس سے محبت کرتا ہے تو اس کے افعال سے بھی محبت کرتا ہے اور خود ان کے اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اہلِ بیعت رسول کے لئے اس پہلو پر زور دیا گیا ہے اور مختلف طرح، مسلمانوں کو ان کی محبت پر آمادہ کیا گیا۔ رسول نے خود محبت کا اظہار کیا اور ایسا کہ جس کی نظیر ملنا ممکن نہیں۔ خالق کی محبت کا اعلان کیا اور ہر طرح قول سے، عمل سے، قرائن سے، آثار سے اس کو نمایاں فرمایا۔ پھر مسلمانوں کو محبت کی دعوت دی۔ ان کی محبت اجرِ رسالت، ان کی محبت شرطِ ایمان و اطاعت اور ان کی محبت معیار فلاح و نجات قرار دی گئی۔ یہ مسلمانوں کے غور کرنے کی بات ہے کہ آخر رسالت مآب کا اس قدر اظہار محبت اور تاکید مودت کرنا اپنے مخصوص اہل بیت اور عترتِ طاہرین کے متعلق معنی کیا رکھتا ہے؟

کیا یہ سب کچھ صرف اس بناء پر تھا کہ وہ آپ کے اہل بیت تھے۔ یعنی ان میں ایک آپ کی بیٹی تھیں۔ ایک آپ کے داماد اور دو آپ کے نواسے تھے؟ کیا صرف عزیز، قریب اور اولاد ہونے کی بنا پر آپ کوشاں تھے کہ دنیا ان کی گرویدہ محبت ہو جائے؟

یہ تو حضرت رسول کے بارے میں کچھ اچھا عقیدہ نہیں ہے۔

آپ دنیا میں مبلغِ شرع اور مصلحِ خلق بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ کا فرض تھا، کہ آپ دنیا کو ان باتوں کی ہدایت کریں جو ان کے فلاح و نجاح کی ضامن ہوں اور ان کی زندگی کے مہذب و شائستہ بنانے میں دخیل ہوں۔ اس لئے اپنی شخصیت اپنے منتبسین اور اپنے اعزاز کے رسوخ و اقتدار کو بڑھانا، ان کی طرف لوگوں کے قلوب کو متوجہ کرنا اور دنیا کو ان کا گرویدہ بنانا صرف اس لئے کہ وہ آپ کے عزیز اور رشتہ دار ہیں نفس پروری، خودغرضی اور جانبداری کا ایک مظاہرہ ہو گا جو کسی طرح شانِ رسول کے لائق نہیں ہے۔

ایک مسلمان کو تو یہ سمجھنا لازم ہے کہ رسالت ماب کا ان حضرات کی محبت و الفت کی تبلیغ میں اس قدر اہتمام کرنا اسی لئے تھا کہ خدا ان کو مقتدائے خلق اور عملی تعلیمات کا نمونہ بنانا چاہتا تھا۔ اس لئے رسول ان کی ہر دلعزیزی میں اس قدر کوشش و اہتمام میں منہمک تھے۔ آپ نے محبت کا بیج بویا تھا اس لئے کہ اس سے نہالِ اطاعت بارآور ہو۔

دوسرا سبب  ÛÛ’ کثرتِ فضائل:

 Ø§ÛŒÚ© انسان جس Ú©ÛŒ عظمت اس Ú©Û’ مختلف ذاتی خصوصیات Ùˆ کمالات Ú©Û’ اعتبار سے انسان Ú©Û’ ذہن نشین ہو Ú†Ú©ÛŒ ہو۔ اس Ú©Û’ افعال Ùˆ اعمال Ú©Ùˆ انسان بہت غائر نظر سے دیکھتا اور ان پر عمل کرنے Ú©ÛŒ کوشش کرتا ہے۔

اہل بیتِ رسول کو یہ خصوصیت بھی انتہائی معراجِ کمال پر واصل کرتی ہے۔ اور رسول نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ان حضرات کے بیانِ فضائل میں صرف کیا۔ اگر ان کی شخصیتوں کو کوئی ذمہ دارانہ حیثیت دینا منظور نہ تھا، اگر انہیں عام رعیت سے کسی بلند کسی خاص درجہ تک بتانا مقصود نہ تھا تو ان کی شخصیتوں کو اس امتیازی شان سے دنیا میں روشناس کرانے کا کیا مقصد تھا اور ان کے فضائل اس شدومد سے بیان کرنے کی وجہ کیا تھی؟

یقیناً یہ فضائل کا بیان بھی اسی بناء پر تھا کہ یہ مربیٴ خلق اور نمونہٴ عمل ہیں۔ لہٰذا ان کے کمالات کو بیش از بیش صورت پر واضح کرنے کی ضرورت تھی۔



back 1 2 3 next