اسوه حسينی



تیسرا سبب کسی شخص سے اغراض کا وابستہ ہونا:

 ÛŒÛ ایسی چیز ہے کہ انسان Ú©Û’ لئے دوسرے Ú©ÛŒ طرف جذب ہونے کا باعث اور اس Ú©Û’ افعال Ùˆ اقوال Ú©ÛŒ اقتدا کا ذریعہ ہوتی ہے۔

اس خصوصیات کو بھی اہل بیت کے لئے نظرانداز نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کی نظر میں بے شک دنیا سے زیادہ آخرت کا سوال مقدم ہے۔ اس لئے دنیا کے نہیں، آخرت کے اغراض اہل بیت سے وابستہ قرار دیئے گئے۔ اور ساقیٴ کوثر، حاملِ لوا، قاسِم جنت و نار، شافِعٴ خلق وغیرہ الفاظ کے ساتھ ان کے روحانی اقتدار کا سکّہ قائم کیا گیا۔ اس سے بھی یہی منظور تھا کہ دنیا ان توقعات کی بنا پر ہی اطاعت و اتباع پر آمادہ ہو سکے۔ اس لئے کہ کسی سے اعانت، امداد سفارش کی توقع اسی وقت حق بجانب ہوتی ہے جب انسان اس کے مسلک کا سالک، اس کے افعال و اقوال کا پیرو بھی ہو۔ انعامات کیلئے جس طرح استحقاق کی ضرورت ہے اسی طرح مراعات بھی ایک جہت استحقاق پر مبنی ہوتی ہے۔ مراحِم خسروانہ کے سلسلہ میں آزادیاں ہوتی ہیں لیکن جرائم پر نظر ڈالی جاتی ہے۔ بعض جرائم اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ مراحِم خسروانہ کے تحت میں بھی عفو کے قابل نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مراحِم خسروانہ میں بھی استحقاق کو دخل ہے۔

شفاعت، سقایتِ کوثر وغیرہ تمام چیزیں ہیں لیکن انہی لوگوں کے لئے جو استحقاق رکھتے ہوں۔ ان کے لئے نہیں جن کے اعمال دیکھ کر خود شفیعِ اکرم کو شرم آجائے اور وہ شفاعت سے کنارہ کشی کر لیں۔ اس سے بہرحال اتباع کی ضرورت ہے تاکہ شفعاء سے آنکھیں چارکرنے کا موقع رہے پھر ناقص انسانیت کی کمزوریوں سے اگر کچھ فروگزاشتیں رہ جائیں تو اس کے لئے شفاعت و مغفرتِ آلہی کی توقع رکھنا بے جا نہیں ہے۔

چوتھا سبب ہے مظلومیت:

 ÛŒÙ‚یناً مظلوم Ú©ÛŒ طرف دنیا کا دل کھنچتا اور اس Ú©Û’ افعال Ùˆ اقوال Ú©Û’ ساتھ غیرمعمولی دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور اس سے بھی اطاعت Ùˆ اتباع Ú©Û’ مقصد Ú©Ùˆ تقویت پہنچتی ہے۔

یہ صفت بھی اہلِ بیتِ رسول میں انتہائے حدِ کمال کے ساتھ پائی گئی اور جیسی مظلومیت کی مثالیں ان میں نظر کے سامنے آئی ہیں دنیا ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

بیان مذکورالصدر کے آخری اجزاء کو غائر نظر سے مطالعہ کرنے سے یہ نتیجہ صاف نکل آتا ہے کہ دنیائے فضائل و مناقب اور دنیائے مصائب دونوں میں ایک ہی روح مضمر ہے اور وہ دعوتِ عمل ہے جس سے اصلاحِ خلق کا مقصد انجام پذیر ہوتا ہے۔ لیکن یہ جب ہی ہے کہ جب اہل بیت کے واقعات کو اس نظر سے دیکھا بھی جائے کہ ان سے کون سے سبق حاصل ہوتے ہیں اور انسان کی عملی زندگی کے لئے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

مگر افسوس ہے کہ دنیا ان مقاصد پر نظر نہیں ڈالتی اور اہل بیت رسول کے تذکرہ ان کی یادگار اور اسی ذیل میں عزائے حضرات امام حسین کے متعلق دو فریق میں منقسم ہو جاتی ہے۔

ایک فریق معترضانہ طور پر اس ذریعہ کی ذاتی حیثیت پر نظر ڈال کر افادی حیثیت کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس لئے اس سب کو بیکار کہنے لگتا ہے اور دوسرا فریق معتقدانہ طور پر اس کی ذاتی حیثیت کو مقصد سے الگ کرکے اسے صرف رسوم میں محدود سمجھ لیتا ہے اور اس طرح اصل مقصد کو فوت کر دیتا ہے۔



back 1 2 3