اسلام عدالت و آزادیکا دین ھے



مکہ فتح کرنے Ú©Û’ بعد رسول خدا  Ù†Û’ متکبر، خود پسند، زبان Ùˆ نسل Ú©Ùˆ ملیہ افتخار سمجھنے والے عربوں Ú©Ùˆ مخاطب کر Ú©Û’ فرمایا : ” اس خدا Ú©ÛŒ تعریف Ú¾Û’ جس Ù†Û’ اسلام Ú©Û’ طفیل میں تمھارے جاھلیت Ú©Û’ آثار ،فخر ØŒ تکبر ØŒ نخوت Ú©Ùˆ ختم کیا ۔یاد رکھو خدا Ú©ÛŒ بارگاہ میں تمام لوگ دو Ú¾ÛŒ قسم Ú©Û’ ھیں Û” ایک گروہ تو وہ Ú¾Û’ جو تقوائے الٰھی Ú©ÛŒ بنا Ø¡ پر بارگاہ ایزدی میں بزرگ Ú¾Û’ دوسرا گروہ وہ Ú¾Û’ جو گنھگاری Ú©ÛŒ وجہ سے اس Ú©Û’ سامنے سر جھکائے Ú¾Û’ Û”

ایک شخص نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی ، مولا ! روئے زمین پر کوئی ایسا نھیں ھے جس کے آباء واجداد آپ کے آباء و اجداد سے بالاتر اور شریف تر ھوں ۔امام (ع) نے فرمایاکہ ان کی بزرگی تقویٰ کی وجہ سے تھی اور ان کا مقصد حیات اطاعت پروردگار تھا ۔ یہ شخص امام (ع) کی نسلی برتری ثابت کرنا چاھتا تھا۔آپ نے فورا ًاس کے غلط طرز فکر کو ٹوک کر برتری کا معیار تقویٰ کو بتایا ۔ ایک دوسرے شخص نے حضرت سے کھا! خدا کی قسم! آپ دنیا میں سب سے بھتر ھیں ۔امام (ع) نے فوراً کھا! اے شخص !قسم مت کھا اگر کوئی مجہ سے زیادہ متقی ھے اور مجہ سے زیادہ خدا کی اطاعت کرتا ھے تو وہ مجہ سے بھتر ھے ۔ خدا کی قسم! ابھی یہ آیت منسوخ نھیں ھوئی ھے ۔ ( وہ آیت یہ ھے ) تم میں سب سے زیادہ محترم وہ ھے جو سب سے زیادہ متقی ھے ۔ (۳ )

وھی تقویٰ جو عین حریت ھے نہ کہ محدودیت ، کیونکہ محدودیت انسان کو موھبت اور سعادت سے محروم کر دیتی ھے لیکن تقویٰ روح کی زرہ ھے جو اس کو معنویت عطا کرتی ھے اور اس کو قید بندگی و ھوا و ھوس سے آزاد کرتی ھے اور شھوت و خشم ، حرص و طمع کی زنجیروں کو اپنے گلے سے نکال دیتی ھے ۔ اجتماعی زندگی میں بھی تقویٰ بشر کے لئے آزادی بخش ھے ۔جس کی گردن میں حسب و نسب اور مرتبے کی زنجیر پڑی ھو وہ اجتماعی لحاظ سے آزادی زندگی نھیں رکھتا ۔

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ھیں :

” قیامت کے دن درستی و پاکیزگی کی کنجی اور ذخیرہ تقویٰ ھے ۔ تقویٰ غلامی کی ھر قید و بند سے آزادی ھے ۔ ھر بد بختی سے نجات و رھائی ھے ۔تقویٰ سے انسان اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا ھے ، دشمن کے شر سے محفوظ رھتا ھے اپنی امیدوں اور آرزؤوں کو حاصل کر لیتا ھے۔( ۴)

تاریخ کے اس تاریک ترین دور میں جب نسلی و طبقاتی نزاع و کشمکش لوگوں میں پوری شدت کے ساتھ موجود تھی اور عقل و آزادی کے بر خلاف وسیع پیمانے پر امتیازات موجود تھے ،جب کمزورو تھی دست تمام شخصی و اجتماعی حقوق سے محروم تھے ، قوم و ملت خونخوار حاکموں کے پنجوں میں تڑپتی تھی، اس وقت پیغمبر اسلام نے بڑی بھادری کے ساتھ ھر قوم کے ناجائز و غلط امتیازات کو لغو قرار دیا ۔ اور تمام افراد میں برابری و کامل مساوات کا اعلان فرمایا ۔ بندگی خدا کے زیر سایہ ھر شخص کو معقول آزادی بخشی ۔یھاں تک کہ معاشرے کے وہ کمزور طبقے جو اشراف حکام کے سامنے اپنے ارادے کو ظاھر کرنے پر قادر نھیں تھے اسلام کے مبنی بر انصاف قانون کے زیر سایہ طاقتور ھو گئے اور روٴسا و بزرگان قوم کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے لگے ۔

جن لوگوں کا خیال ھے کہ دنیا کے موجودہ مکاتب فکر، بشری اجتماع سے محروم ، اور ستم رسیدہ لوگوں کا دفاع اسی طرح کر سکتے ھیں جس طرح اسلام نے کیا ھے وہ یقینا اشتباہ میں مبتلا ھیں انھوں نے حقیقت اسلام کو درک نھیں کیا ۔

حقیقت یہ ھے کہ اجتماعی عدالت کی جو کامل ترین صورت اسلام نے پیش کی ھے کوئی بھی سسٹم یا مکتب فکر نھیں پیش کر سکا ھے۔ انتھا یہ ھے کہ کمیونسٹ جو دین و مذھب کے دشمن ھیں اسلام کی عظیم نھضت ، موثر نقش ، اساسی تعلیمات کا اعتراف کرتے ھیں ۔

ایران کا ایک کمیونسٹ اخبار لکھتا ھے :ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں اسلام کا ظھور تاریخ کا وہ بھترین شاھکار ھے جس نے بشر کے چھرھٴ تمدن میں انقلاب پیدا کر دیا ۔ اس عظیم واقعھ، ظھور اسلام جس کے فتوحات ایک صدی سے بھی کم مدت میں ایک طرف تو ساحل ”لوآر “ تک اور دوسری طرف ساحل ” سندہ و جیون “تک پھونچ گئے تھے، نے کتاب زندگی میں ایک دلچسپ باب کا اضافہ کیا ھے ۔

خود جزیرة العرب کے اندر یھودی ، عیسائی مذھب کے متعدد مرکز ِتبلیغ تھے ، اعراب مکہ اور بادیہ نشین قبائل بت پرست تھے ، مکہ مرکز تجارت تھا ، سودخواروں کا گڑھ تھا ،قبائل سسٹم کا ملجاوماوی تھا ، ملّی تعصب کا منبع تھا ، مختلف مذاھب کا مرکز تھا ۔



back 1 2 3 4 5 6 next