شادی کی رسومات



معمر اور منافق لوگ پھلے نظریہ سے متفق تھے لیکن جوانوں کی تعداد چونکہ بھت زیادہ تھی اسی لئے وہ دوسرے نظریہ کے حامی تھے، اور اس پر ان کا سخت اصرار تھا۔

رسول خدا (ص) نے جانبین کے نظریات اور طرفین سے باھر نکل کے استدلال سننے کے بعد دوسرے نظریہ کو پسند فرمایا اور یہ فیصلہ دیا کہ دشمن کا مقابلہ شھر سے باھر نکل کر کیا جائے چہ شوال کو آپ نے نماز جمعہ کی امامت فرمائی، فریضہ نماز ادا کرنے کے بعد آپ نے اصحاب کو صبر و شکیبائی اور استقامت و پائیداری کی تلقین فرمائی، لشکر (۱۰۰۰) ایک ھزار افراد کو دیا اور جھاد کی خاطر مدینہ سے باھر تشریف لے گئے۔

جب لشکر اسلام ”شواط“ کی حدود میں پھونچا تو منافقین کا سردار ”عبد اللہ بن ابی“ اپنے (۳۰۰) تین سو ساتھیوں کے ساتھ یہ بھانہ بناکر علیحدہ ھوگیا کہ رسول خدا نے جوانوں کے اس نظریہ کو اس کے مشورے پر ترجیح دی ھے اور اپنے ساتھیوں کے ھمراہ واپس مدینہ آگیا (۳) اس منافق کی روگردانی کے پس پشت در اصل یہ محرک کار فرما تھا کہ جنگ کے حساس و نازک موقعہ پر پیغمبر خدا کا ساتھ چھوڑ کر آپ کی قیادت کو کمزور کردے تاکہ سپاہ اسلام کی صفوں میں تزلزل و اختلاف پیدا ھوجائے۔

اسی تفرقہ انگیز حرکت کے بعد قبیلہ ”خزرج“ کے دو طائفوں میں سے ”بنی سلیمہ''کے دو طائفے اور قبیلہ ”اوس“ کے طائفہ بنی حارث کے لوگ بھی اپنی ثابت قدمی میں متزلزل ھونے لگے اور واپس جانا چاھتے ھی تھے کہ خدا کی مدد اور دوسرے مسلمانوں کی ثابت قدمی نے ان کے ارادے کو مضبوط کردیا، اور اس طرح منافقین کی بزدلانہ سازش ناکام ھوگئی، چنانچہ قرآن مجید نے بھی سورہ آل عمران میں اس مسئلہ کی جانب اشارہ کیا ھے، (۱)

اذ ھمت طائفتین منکم ان تفشلا و اللّٰہ ولیھما و علیٰ اللّٰہ فلیتوکل الموٴمنین

(یاد کرو جب تم دو گروہ بزدلی پر آمادہ ھوگئے تھے، حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا، اور مومنوں کو اللہ ھی پر بھروسہ رکھنا چاھئے۔)

ھفتہ کے دن سات شوال کو احد کے دامن میں دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔

اگرچہ کوہ احد لشکر اسلام کی پشت پر تھا مگر اس کے باوجود رسول خدا (ص) نے ”عبد اللہ بن جبیر“ کے زیر فرمان پچاس کمانداروں کو درہ ”عینین“ کے دھانے پر اس مقصد کے تحت مقرر کر دیا تھا کہ دشمن کو درے کے راستے سے میدان کارزار میں نہ آنے دیں۔

جنگ کا آغاز دشمن کے سپاھی ”ابوعامر“ کی تیر اندازی سے ھوا اس کے بعد جنگ کی نوبت آئی، اس مرحلہ میں مشرکین کے نوجانباز اور پر چمدار چند افراد کے ساتھ میدان کارزار میں اترے اور سب کے سب حضرت علی (ع) کے ھاتھوں ھلاک ھوئے۔

دوسرے مرحلہ پر دشمن کاپورا ریلا مسلم سپاہ پر حملہ آور ھوا، جس پر قریش نے اپنی پوری طاقت صرف کردی، اس مرتبہ عورتیں اشعار نیز نغمہ و سرود کے ذریعہ مردوں کو مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے ترغیب دلا رھی تھیں تاکہ اس سنگین داغ کو جو جنگ بدر میں ان کے دامن پر لگا تھا مٹا سکیں، لیکن مجاھدین اسلام کی بھادرانہ استقامت و پائیداری اور دشمنوں کی صفوں پر ھر جانب سے حملہ آوری بالخصوص امیر المومنین حضرت علی (ع)، حضرت حمزہ اور حضرت ابودجاجہ کی سرشکن پے در پے ضربوں کے باعث مشرکین کی سپاہ میں مقابلہ کی تاب نہ رھی اور اس نے اپنی عافیت فراری میں ھی سمجھی۔



back 1 2 3 next