شادی کی رسومات



جب مشرکین فرار کرنے لگے تو مسلمانوں کے بھت بڑے گروہ نے یہ سمجھا کہ جنگ ختم ھوگئی ھے، چنانچہ وہ مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ھوگئے، اگرچہ رسول اکرم (ص) کی سخت تاکید تھی کہ جن سپاھیوں کو درہ ”عینین“ کی پھرہ داری پر مقرر کیا ھے وہ اپنی ذمہ داری سے ھرگز غافل نہ ھوں، مگر آنحضرت کی تاکید اور فرمانداروں کی سخت کوشش کے باوجود دس افراد کے علاوہ وہ تمام سپاھی جو اس درہ کی نگرانی پر مامور تھے اپنی پھرہ داری کو چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ھوگئے۔

خالد بن ولید دشمن کی سوار فوج کا فرماندار تھا، فن حرب کی رو سے درہ ”عینین“ کی کیا اھمیت ھے اس سے بخوبی واقف تھا، اس نے کتنی ھی مرتبہ یہ کوشش کی تھی کہ سپاہ اسلام کے گرد چکر لگائے لیکن مسلمان تیر اندازوں نے اسے ھر مرتبہ پسپا کردیا، اس نے جب مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرتے دیکھا تو سرعت کے ساتھ کوہ احد کا چکر لگایا اور ان باقی سپاھیوں کو قتل کردیا جو وھاں موجود تھے جب درے کی پاسبانی کے لئے کوئی سپاھی نہ رھا تو وہ وھاں سے اتر کے نیچے آیا اور ان سپاھیوں پر اچانک حملہ کردیا جو مال غنیمت سمیٹنے میں لگے ھوئے تھے۔

عورتوں نے جب خالد بن ولید کے سپاھیوں کو حملہ کرتے دیکھا تو انھوں نے بھی اپنے مال بکھیر دیئے اور گریبان چاک کرڈالے، وہ چیخ چیخ کر مشرکین کو اشتعال دلا رھی تھیں اور کوشش کر رھی تھیں کہ جو لوگ فرار کرگئے ھیں وہ واپس آجائیں۔

دشمن کے ان دو اقدام کے باعث اس کی طاقت دوبارہ منظم ھوگئی، چنانچہ اس نے مسلمانوں پر سامنے اور پشت سے حملہ کردیا، اگرچہ مسلمانوں نے اپنا دفاع کرنا بھی چاھا مگر چونکہ وہ پراگندہ تھے لھٰذا ان کی کوشش کار گر نہ ھوئی۔

اسی اثنا میں میدان جنگ سے یہ صدا بلند ھوئی کہ ”ان محمداً قد قتل“ محمد قتل کردیئے گئے ھیں، جب یہ افواہ ھر طرف گشت کرگئی تو لشکر اسلام ان تین دستوں میں تقسیم ھوگیا:

۱۔ ایک دستہ میدان جنگ سے ایسا گیا کہ واپس نہ آیا، اور جب تین دن بعد اس کے افراد رسول خدا (ص) کی خدمت میں پھونچے تو آنحضرت نے ان کی سرزنش کرتے ھوئے فرمایا: تم نے گویا تنگی سے نکل کر کشادہ راہ اختیار کی تھی۔ (اس دستہ میں عثمان بن عفان بھی شامل تھے)

۲۔ دوسرے دستہ میں وہ لوگ شامل تھے جو فرار کرکے گرد و نواح کے پھاڑوں میں چھپ گئے تھے، اور یہ انتظار کر رھے تھے کہ دیکھئے کیا پیش آتا ھے، ان میں سے بعض حواس باختہ ھوکر یہ کھنے لگے کہ اے کاش ھم میں سے کوئی ھوتا جو ”عبد اللہ بن ابی“ کے پاس چلا جاتا اور وہ ابوسفیان سے ھماری امان کے لئے سفارش کرتا۔ (طبری ج۲۔ ص۵۲۰)

”انس ابن نصر“ کو راہ میں کچھ ایسے لوگ مل گئے جو فرار کرچکے تھے، انھوں نے گھبرا کر ان سے دریافت کیا کہ تم یھاں بیٹھے کیا کر رھے ھو؟ انھوں نے جواب دیا :

رسول خدا (ص) کو قتل کر دیا گیا ھے، اس پر انس نے جواب دیا کۂ جب رسول خدا اس دنیا میں نھیں رھے تو یہ زندگی کس کام کی، اٹھو اور جھاں رسول کا خون گرا ھے تم بھی اپنا لھو وھاں بھادو۔

اس گروہ نے جو اکثریت پر مشتمل تھا نہ صرف انس کی بات کا مثبت جواب نھیں دیا بلکہ اسے رسول اکرم (ص) کا یہ قول بھی یاد آگیا کہ اے لوگو فرار کرکے کھاں جا رھے ھو خدا کا وعدہ ھے کہ فتح و نصرت ھمیں حاصل ھوگی، لیکن انھوں نے رسول خدا کی ایک نہ سنی اور فرار کرتے ھی چلے گئے۔

سورہ آل عمران کی آیت ۱۵۳ میں بھی اس امر کی جانب اشارہ ھے:

اذ تصعلون و لا تلوون علی احد و الرسول یدعوکم فی اخرکم

(یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارھے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ھوش تمھیں نہ تھا، اور تمھارے پیچھے رسول تم کو پکار رھا تھا۔)



back 1 2 3