اسلام ميل جول اور تعلقات کا دين يے جدائی کا نهيں



والثالثۃ: اَن لاَ تُغَیِّرَہُ عَلَیكَ وِلَایَةٌ وَ لَا مَالٌ تیسری شرط یہ ہے كہ: اقتدار اور مال و دولت تمہارے ساتھ اسكے طرزِ عمل میں تبدیلی نہ لا سكے۔یعنی اگر وہ ایك معمولی فرد تھا نہ اسكے پاس مال تھا نہ منصب و مقام اور تمہارے ساتھ دوستی میں كسی امتیاز كا قائل نہ تھا۔ پھر اس كی قسمت نے یاوری كی اسے منصب و مقام حاصل ہو گیا وہ مال ودولت كا مالك ہو گیا اس كے باوجود اس نے رشتہ ٔ دوستی استوار ركھا اور ایسے رہا جیسے كچھ بدلا ہی نہ ہو تو ایسا شخص تمہارا سچا دوست ہے اسكی دوستی كی حفاظت كرو اور اس سے ہم نشینی كے مشتاق رہو۔

والرابعة: لَا یَمنَعُكَ شَئاً تَنَالُہُ مَقدَرَتُہ چوتھی شرط یہ كہ :جو چیز اسے حاصل ہو اور تمہیں اس كی ضرورت پڑ جاۓ تو اسے دینے سے منع نہ كرے۔

والخامسۃ: وَ ہِیَ اللتی تَجمَعُ ہٰذِہِ الخِصَال: اَن لَایُسَلِّمُكَ عِندَ النَّكبَاتِ۔ پانچویں شرط جو گزشتہ تمام شرائط كو اپنے اندر شامل كۓ ہوۓ ہے وہ یہ ہے كہ: مصیبت میں تمہیں تنہا نہ چھوڑے ۔ یعنی جب گردشِ زمانہ تمہیں جكڑ لے اور تم مصائب و مشكلات میں پھنس جائو تو تم سے آنكھیں نہ پھیر لے بلكہ تمہارے سخت حالات كو دیكھنے كے بعد خنداں پیشانی كے ساتھ ان كے مقابلے میں تمہاری مدد كرے تمہیں تقویت پہنچاۓ اور مشكلات كے بھنور سے تمہیں صحیح و سالم باہر نكال لے۔ آج كے زمانے میں بھلا ایسے دوست كہاں ملتے ہیں؟ امام علی ںكے كلام میں بھی ملتا ہے كہ: لَایَكُونُ الصَّدِیقُ صَدِیقاً حَتَّی یَحفَظَ اَخَاہُ فِی ثَلاَثٍ فِی نَكبَتِہِ وَ غَیبَتِہِ وَ وَفَاتِہِ كوئی دوست اس وقت تك دوست نہیں ہو سكتا جب تك كہ تین مواقع پر اپنے بھائ كا خیال نہ ركھے۔ مشكلات میں اس كی عدم موجودگی میں اور اس كی وفات كے بعد۔ زمانے كی مشكلات اور ان كے حملوں سے اسے محفوظ ركھے اور اگر لوگ پسِ پشت اس كی غیبت كریں تو نہ كرنے دے اور كوشش كرے كہ دوسرے اس كے دوست كو صرف اچھے الفاظ سے یاد كریںاور موت كے وقت اور موت كے بعد اس كے اہل و عیال كا خیال ركھے۔نیز آپ ہی نے فرمایا ہے: اَلصَّدِیقُ الصَّدُوقُ مَن نَصَحَكَ فِی عَیبِكَ سچا اورمخلص دوست وہ ہے جو تمہارے نقص و عیب كی اصلاح كے لۓ تمہیں نصیحت كرے ۔ پس جیسے ہی تمہارے اندر كوئی عیب دیكھے تمہیں اس سے آگاہ كرے اور اسے دور كرنے كی كوشش كرے۔ كیونكہ مخلص دوست كی خواہش ہوتی ہے كہ اس كا دوست ہر طرح كے عیب سے پاك ہو۔ مشہور ومعروف حدیث ہے: اَلمُؤمِنُ مِرآةُ اَخِیہِ (مومن اپنے بھائ كے لۓ آئنہ ہے) مراد یہ ہے كہ تم اپنے آپ كو اپنے بھائ كے اندر دیكھو۔ یعنی بعض اوقات تمہارا بھائ تمہارے بارے میں كچھ ایسی چیزوں كو جانتا ہے جن سے خود تم بھی واقف نہیں ہوتے۔ بالكل اسی طرح جیسے تمہارے چہرے كی خوبصورتی جسے تم خود نہیں دیكھ سكتے آئنہ دكھا دیتا ہے۔وَ حَفَظَكَ فِی غَیبِكَ وَ آثَرَكَ عَلیٰ نَفسِہِ (تمہارا حقیقی دوست و ہ ہے جو تمہاری عدم موجودگی میں تمہاری حفاظت كرے اور اپنے آپ پر تمہیں ترجیح دے) لہٰذا جب كبھی ایسا ہو كہ ایك چیز بیك وقت تمہاری بھی ضرورت ہو اور اس كی بھی ضرورت تو اپنے آپ پر تمہیں ترجیح دے۔

نیز آپ ہی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: اَلصَّدِیقُ مَن كَانَ نَاھِیّاً عَنِ الظُّلمِ وَ العُدوَانِ (تمہارا دوست وہ ہے جو تمہیں ظلم اور سركشی سے روكے) ۔یعنی اگر وہ دیكھتا ہے كہ اس كا دوست گھر میں اپنے اہلِ خانہ پر ظلم كر رہا ہے یا باہر لوگوں پر ستم ڈھا رہا ہے تو نہ صرف یہ كہ اس ظلم میں اس كی مدد نہیں كرتا بلكہ اسے ظلم و ستم سے روكتا ہے۔ نقل ہوا ہے كہ ایك شخص نے معروف عربی جملے:اُنصُراَخَاكَ ظَالِماً اَو مَظلُوماً (اپنے بھائ كی مدد كرو چاہے ظالم ہو یا مظلوم) كے متعلق پیغمبرِاكرم سے سوال كیا اور آنحضرت سے عرض كیا كہ مظلوم كی مدد كے معنی تو ہمیں معلوم ہیں لیكن ظالم كی مدد كے كیا معنی ہیں؟ آنحضرت نے جواب میں فرمایا: ظالم كی مدد كرنے كے معنی یہ ہیں كہ اسے ظلم كرنے سے روكو نفسِ امارہ پر غلبے كے سلسلے میں اسكی مدد كرو تاكہ اس طرح وہ دوسروں پر ظلم كا مرتكب نہ ہو۔ حضرت علی ںنے فرمایا: اَلصَّدِیقُ مَن كَانَ نَاہِیّاً عَنِ الظُّلمِ وَ العُدوَانِ مُعِیناً عَلَیٰ البِرِّ وَ الِاحسَانِ تمہارا دوست وہ ہے جو ظلم اور سركشی سے تمہیں روكے اور بھلائ و نیكی میں تمہاری مدد كرے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر بھی حضرت سے نقل ہوا ہے كہ: اِنَّمَا سُمِّیَ الصَّدِیقُ صَدِیقاً ِلنَّہُ یَصدُقُكَ فِی نَفسِكَ وَ مَعَایِبِكَ فَمَن فَعَلَ ذَالِكَ فَاستَنَمَ اِلَیہِ فَاِنَّہُ الصَّدِیق دوست كو صدیق اس لۓ كہتے ہیں كہ وہ تمہاری ذات اور تمہارے عیوب كے متعلق صداقت كا اظہار كرتا ہے ۔ لہذا جو شخص ایسا كرے تم اسكے ساتھ مطمئن رہو اس لۓ كہ وہ تمہارا مخلص دوست ہے۔

قارئن محترم! ان كلمات پر غور كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت امام علیںاجتماعی زندگی كی باریكیاں سمجھنے میں عظیم مرتبے پر فائز تھے۔ یہی وہ راز ہے كہ جس كی بنا پر ہم مسلسل حضرت علی كو سمجھنے اور آپ كو پہچاننے كی دعوت دیتے ہیں۔ البتہ ہم اس دعوت كے ذریعے یہ نہیں چاہتے كہ آپ یہ جاننے میں لگ جائں كہ حضرت نے عرب كے بہادروں اور مشرك سرداروں جیسے مرحب ، عمرو بن عبدود وغیرہ كو كیسے زیر كیا بلكہ ہماری دعوت كا مقصد یہ ہے كہ دیكھا جاۓ كہ آپ كس طرح تاریكیوں اور جہل سے پردہ اٹھاتے تھے اور كس طرح عام اذہان كے لۓ حقائق كی وضاحت فرماتے تھے۔ نہیں پتا اگر آج امام علیں ہمارے درمیان موجود ہوں تو ہم ان كے ساتھ كیا كریں؟ كس طرح پیش آئں اور ہمارا رویہ آپ كے ساتھ كیا ہو۔۔۔؟ عمر بن خطاب نے حضرت علی ںكی عظمت ِفكر اور دور اندیشی كے متعلق كہا ہے:لَو وَلِیَھَا عَلِیٌّ لَحَمَلَھُم عَلٰی المَحَجَّةِ البَیضَائِ (اگر حكومت علیں كے ہاتھوں میں ہوتی تو وہ لوگوں كو حق اور روشن راستے كی طرف لاتے) ۔ لیكن كون اس درست اور روشن راستے كو قبول كرتا؟ خود آنحضرت نے فرمایا ہے: مَا تَرَكَ لِیَ الحَقُّ مِن صَدِیقٍ (حق نے میرے لۓ كوئی دوست باقی نہ چھوڑا) ۔یعنی میں حق پر عمل كرنے میں اس قدر باریك بین سنجیدہ اور سخت گیر تھا كہ میرے دوست بھی مجھ سے منھ موڑگۓ۔ نیز حضرت ں دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: صَدِیقُكَ مَن نَہَاكَ عَن ارتِكَابِ المَآثِمِ وَ الذُّنُوبِ وَ عَدُوُّكَ مَن اَغرَاكتمہارا دوست وہ ہے جو تم كو لغزشوں اور گناہوں سے روكے اور تمہارا دشمن وہ ہے جو تمہارے گناہوں اور عیوب پر تمہیں فریب دے اور تمہیں گستاخ كر دے۔ معروف مثل ہے: مَن اَبكَاكَ بَكَیٰ عَلَیكَ وَ مَن اَضحَكَكَ ضَحِكَ عَلَیكَ (جو تم كو رلاۓ تم پر رویا اور جو تم كو ہنساۓ وہ تم پر ہنسا) ۔یعنی اگر تم سے رونے كو كہا اور تم روۓ تو وہ خودبھی تمہارے ساتھ تم پر رویا اور اگر تم سے ہنسنے كو كہا تم كو ہنسایا اور خود بھی تمہارے ساتھ ہنسا ۔یعنی خوشی و غمی كے تمام مراحل میں تمہارا ہمدل و ہمدم رہا۔ لیكن افسوس بعض افراد صرف اس كے دوست ہوتے ہیں جو ان پر ہنستے ہیں اور جو ان كے لۓ روتے ہیں ان كو نہیں چاہتے اور دوست نہیں ركھتے۔

دوستی سے پہلے آزمائش

لوگوں كی اكثریت كا ظاہر و باطن یكساں نہیں ہوتا ان كا ظاہر كچھ ہوتا ہے اور باطن كچھ۔ لہٰذا انسان پر لازم ہے كہ وہ لوگوں كی زندگی كا گہرائ كے ساتھ مطالعہ كرے اور ان كو اچھی طرح پہچانے اور یہ شناخت خواہ ان لوگوں سے میل جول كے دوران ذاتی تجربے كے ذریعے حاصل كرے یا ان قابلِ اعتماد اشخاص كے ذریعے حاصل كرے جو ان كے یہاں رفت و آمد ركھتے ہیں اور ان كو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اور یہ امر صرف دوستی و رفاقت سے مخصوص نہیں ہے بلكہ انسانی زندگی كے تمام تعلقات شادی بیاہ اوردیگر روابط میں اسے پیش نظر ركھنا چاہۓ ۔ شادی كے مسئلے میں ضروری ہے كہ مرد غور كرے كہ اپنی ہونے والی بیوی سے كیا چاہتا ہے اور شادی سے قبل اسكی شخصیت كے مختلف عناصر كے متعلق تحقیق كرے اور یہی باتیں عورت كو بھی ہونے والے شوہر كے متعلق ملحوظ ركھنی چاہئں ۔ اسے بھی جاننا چاہۓ كہ اس كے ہونے والے شوہر میں كن صفات كا ہونا ضروری ہے؟ اور وہ خصوصیات اس مرد میں پائ جاتی ہیں یا نہیں؟ كیونكہ شادی سے پہلے كی یہ تحقیق و معلومات ان كی آئندہ ازدواجی زندگی كی سلامتی كی ضامن ہیں۔ میرے عزیز و! یہی وجہ ہے كہ شادی میں والدین كو لڑكے اور لڑكی پر اپنی راۓ مسلط نہیں كرنی چاہۓ اور ان سے تحقیق اور انتخاب كا حق نہیں چھین لینا چاہۓ۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں كہ والدین خاندانی مصلحتوں اور خاندانی روابط یا دوستیوں كو مستحكم كرنے كی خاطر اپنے لڑكوں یا لڑكیوں كی شادی ان كی رضامندی كے بغیر كر دیں۔ كیونكہ زندگی ماں باپ نے نہیں گزارنی بلكہ انہیں لڑكے اور لڑكی كی زندگی كی مصلحتوں كو مدِ نظر ركھنا چاہۓ۔اگر انسان سوچے تو شادی واقعی ایك اہم مسئلہ ہے۔ كیونكہ شادی كے ذریعے ایك شخص آپ كے دن رات كا ساتھی بن جاتا ہے۔ آپ كی زندگی كے تمام اسرار سے آگاہ ہو جاتا ہے اور زندگی كے طویل سفر كے تمام مراحل میں آپ كا ہم سفر قرار پاتا ہے۔ بتایۓ كیسے ممكن ہے كہ بغیر تحقیق كے ایسے شخص كا انتخاب كر لیا جاۓ؟لہٰذا ضروری ہے كہ انسان اپنے شریكِ حیات كے متعلق یا تو خود ذاتی طور پر تحقیق كرے یا صاحبِ نظر افراد اور مخلص اور خیر خواہ دوستوں سے مشورہ كرے۔ یہ تحقیق اور معلومات كا حصول نہ صرف شادی كے مسئلے میں بلكہ تمام روابط میں ضروری ہے خواہ وہ معاشی روابط ہوں یعنی كسی كو كاروباری شریك بنانا چاہتے ہوں یا سیاسی روابط ہوں اورآپ كسی پارٹی یا تنظیم كا ركن بننا چاہتے ہوں اور خواہ كوئی دوسرا انسانی رابطہ ہو۔ ہر چیز سے قبل افراد كے بارے میںتحقیق كرنا چاہۓ اور ان كے متعلق مطلوبہ معلومات حاصل كرنی چاہئں۔

احادیث آزمائش كی تاكید كرتی ہیں

آیۓ سب مل كر اس باب میں ائمہ علیہم السلام كے كلام كی جانب چلتے ہیں اور بغور اسے سنتے ہیں۔ كتاب غرر الحكم میں حضرت علی ںفرماتے ہیں: قَدِّمِ الِاختِبَارَفِی اتِّخَاذِ الاِخوَانِ فَاِنَّ الاِختِبَارَ مِعیَارٌ تَفرُقُ بِہِ بَینَ الاَخیَارِ وَ الاَشرَارِدوست بنانے سے پہلے اس كی آزمائش كرو كیونكہ آزمائش اچھے اور برے كے درمیان تمیز كا پیمانہ ہے۔ یعنی آزمائش وہ پیمانہ ہے جو آپ كے سامنے واضح كر دیتی ہے كہ كون نیك ہے اور كون بد۔ لہٰذا جب تك كسی انسان كی آزمائش نہ كر لو اور اس كے اخلاق افكاراور طور طریقوں كو پركھ نہ لو اسے دوست نہ بنائو۔ ایك دوسری حدیث میں امام علیں فرماتے ہیں:قَدِّمِ الِاختِبَارَ وَ اَجِدِ الِاستِظہَارَ فِی اِختِیَارِ الاِخوَانِ وَ اِلاَّ اَلجَاَكَ الاِضطِرَارَ اِلٰی مُقَارَنَةِ الاَشرَارِ پہلے آزمائش كرو پھر دوست بنائو اور دوست بنانے میں احتیاط سے كام لو (و گر نہ گردشِ زمانہ اور) مجبوری تمہیں اشرار كی ہم نشینی پر مجبور كر دے گی۔ كتاب كنز العمال میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كی ایك حدیث ہے: اِذَا رَاَیتَ مِن اَخِیكَ ثَلاَثَ خِصَالٍ فَارجُہُ الحَیائُ وَ الاَمَانَةُ وَ الصِّدقُ وَ اِذَا لَم تَرَہَا فَلاَتَرجُہ۔ جب بھی اپنے بھائ میں یہ تین خصوصیات دیكھو تو اس كی دوستی اور محبت كے امید وار رہو۔ ١۔ حیاء ۔ ٢۔امانت داری ۔ ٣۔ صداقت ۔اور اگر یہ چیزیں اس میں نظر نہ آئں تو وہ دوستی كے قابل نہیں ہے۔ یعنی ہوشیار رہوكہ جس كو دوست بنا رہے ہو وہ كہیں بے شرم و بے حیا نہ ہوبلكہ اسے با حیا معزز اور لوگوں كے ساتھ تعلقات میں حیا كا پابند ہونا چاہۓ۔ كیونكہ ایسا شخص لوگوں كے ساتھ احترام سے پیش آتا ہو۔ حضرت امام صادق ںسے منقول ہے: اِختَبِرُوا اِخوَانَكُم بِخَصلَتَینِ فَاِن كَانَت فِیہِم وَ اِلاَّ فَاعزُب ثُمَّ اعزُبدو خصوصیات سے اپنے بھائوں كی آزمائش كرو ۔اگر یہ خصوصیات ان میں پائ جائں تو انہیں اپنا دوست اور بھائ بنائو و گر نہ چھوڑ دو۔ (وہ خصوصیات ہیں):

1. اَلمُحَافَظَةُ عَلَی الصَّلاَةِ فِی مَوَاقِیتِہَا (نماز كو اس كے مقررہ وقت پر ادا كرنے كا پابند ہو) ۔ ایسے فرد كی دوستی خدا كی بندگی اور اطاعت میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اسی طرح اطاعت الٰہی میں مسلسل انہماك اور پابندی ٔ وقت كا احترام لوگوں كے ساتھ اجتماعی میل ملاپ میں انسان كی طبیعت پر مثبت اثرات مرتب كرتا ہے۔

2. وَ البِرُّ بِالاِخوَانِ فِی العُسرِ وَ الیُسرِ (تنگی اور فراخی دونوںحالتوں میں اپنے بھائ كے ساتھ حسن سلوك) ۔یعنی مددا ور معاونت كے ذریعے حتیٰ المقدور اپنے بھائ كی ضروریات پوری كرے۔ امام صادق ںكی ایك دوسری حدیث میں ہے: اِذَا كَانَ الزَّمَانُ زَمَانُ جَورٍ وَ اَہلُہُ اَہلَ غَدرٍ فَالطَّماَنِینَةُ اِلٰی كُلِّ اَحَدٍ عَجزٌ جب ایسا زمانہ ہوجس میں ظلم و جور كا دور دورہ ہو اور جب اہلِ زمانہ دھوكہ باز اور فریبی ہوں تو ایسے دور میں ہر ایك پر بھروسہ كر لینا عجز و ناتوانی (كاموجب) ہے۔ یعنی جب كبھی ایسا دور ہو كہ افرادِ معاشرہ ایك دوسرے پر ظلم و ستم كریں ایك دوسرے كی حق تلفی كریں ایك دوسرے كے ساتھ كۓ گۓ عہد و پیمان نہ نبھائں ایك دوسرے كے ساتھ دھوكہ و فریب كے مرتكب ہوں تو ایسے دور میں كسی پر اطمینان و اعتماد نہ كرنا خود كو دست بستہ كسی كے حوالے نہ كر دینا بلكہ ہر ایك كو آزمانا تاكہ اس كی حقیقت تم پر واضح ہو جاۓ كہ ظالم و ستم گر ہے یا وفادار اور عادل؟ ایك حدیث میں حضرت علی ںفرماتے ہیں: لاَ تَثِق بِالصِّدِیقِ قبَلَ الخِبرَةِ كسی دوست پر اس وقت تك بھروسہ نہ كرو جب تك اسے پركھ نہ لو۔ اگر مخصوص حالات اور روز مرہ زندگی میں سماجی تعلقات كے دوران آپ كی كسی سے شناسائ ہو جاۓ پھر وہ آپ كا دوست بن جاۓ تو فوراً ہی اس پر اعتماد نہ كر لیجۓ اپنی زندگی كے رازوں اور پوشیدہ باتوں سے اسے آگاہ نہ كردیجۓ اور اسے اپنی زندگی میں شامل نہ كیجۓ جب تك كہ اسے آزمانہ لیجۓ اور اچھی طرح پركھ نہ لیجۓ كہ وہ ایك قابلِ اعتماد دوست كے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟ حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں: تَجَنَّب عَدُوَّكَ وَ احذَر صَدِیقَكَ مِنَ الاَقوَامِ اِلاَّ الاَمِینَ مَن خَشِیَ اللّٰہَ اپنے دشمن سے دوررہو اور قوم وقبیلے سے تعلق ركھنے والے دوست سے محتاط رہو سواۓ اس امین شخص كے جو خوفِ خدا ركھتا ہو۔ قدرتی بات ہے كہ جو شخص كھلا اور آشكارا دشمن ہے اس سے انسان كو دور رہنا چاہۓ كیونكہ دشمن كی توذہنیت ہی نقصان پہنچانا ہے۔ لہٰذا اس سے فاصلہ ركھنا چاہۓ تا كہ اس كی طرف سے پہنچنے والے نقصان سے محفوظ رہے لیكن وہ دوست جس كی امانت داری كو پركھ نہیں سكے ہو اس سے محتاط رہو۔ یہاں اس نكتے پر توجہ دلانا ضروری ہے كہ احتیاط پر عمل كرنے كے معنی یہ نہیں كہ دوستی ترك كر دی جاۓ ۔

لہٰذا امام ںنے دو مختلف الفاظ تَجَنَّب اور اِحذَر یعنی دوری اختیار كرو اور احتیاط برتو كا استعمال كیا ہے ۔اور احتیاط كے معنی یہ ہیں كہ محتاط رہو اور خود كو مكمل طور پر اس كے حوالے نہ كردو تا كہ اگر بعد میں معلوم ہو كہ وہ امانت دار اور رازوں كا محافظ نہیں ہے تو اس كے ساتھ دوستی اور تعلقات پر نظر ثانی كرسكو ۔ كیونكہ ممكن ہے وہ تمہارا دشمن ہو اور اس نے تم سے اپنی دشمنی كو چھپایا ہوا ہو۔ بقول شاعر: اِحذَر عَدُوَّك َمَرَّةوَ اِحذَرصَدِیقَكَ اَلفَ مَرَّةً فَلَرُبُّ مَا انقَلَبَ الصَّدِیقُ فَكَان َ اَدرِی بِالمَضَرَّةِ یعنی اپنے دشمن سے ایك بار احتیاط كرو اور اپنے دوست سے ہزار بار۔ ممكن ہے دوست بدل جاۓ اس صورت میں تمہیں نقصان پہنچانے كے طریقوں سے دوسروں سے زیادہ واقف ہو گا۔ بے شك جو دوست آپ كے تمام اسرار سے واقف ہے اگر آپ كے اور اس كے درمیان كدورت پیدا ہو جاۓ یا كوئی اختلاف جنم لے لے تو وہ آپ كے تمام اسرار جن كے انكشاف سے آپ كونقصان پہنچے گا آپ كے دشمنوں كے سامنے كھول كر بیان كر دے گا۔جس طرح پہلے بھی ہم نے عرض كیا احتیاط برتنے كے معنی یہ ہیں كہ اپنے آپ كو پوری طرح اس كے حوالے نہ كر دیں اس بات كو ہم نے بارہا حضرت علی ںسے نقل كیا ہے۔ ایك مقام پر فرماتے ہیں: لَاتَثِقَنَّ بِاَخِیكَ كُلِّ الثِّقَةِ فَاِنَّ صَرعۃَ الاِستِرسَالِ لاَتُستَقَالُ اپنے بھائ پر مكمل اعتماد نہ كرو اس لۓ كہ خوش فہمی كی وجہ سے پہنچنے والا نقصان ناقابلِ تلافی ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے كہ اندھے اعتماد كی ممانعت كی گئ ہے ۔آپ كے اور آپ كے دوست كے درمیان كچھ فاصلے كا ہونا ضروری ہے۔ تا كہ اگر پتا چلے كہ اس كی دوستی آپ كے ساتھ حقیقی اور مخلصانہ نہیں ہے یا اسكی دوستی دشمنی میں تبدیل ہوجاۓ تو آپ اس سے خود كو محفوظ ركھ سكیں۔ اسی بارے میں امام علی ںنے فرمایا ہے: اُبذُل لِصَدِیقِكَ كُلَّ مَوَدَّةٍ وَ لَاتَبذُل لَہُ كُلَّ الطُّماَنِینَۃِ اپنے دوست پر اپنی پوری محبت نچھاور كر دو لیكن اس پر مكمل بھروسہ نہ كرو ۔ احتیاط كو اپنا شعار بنانے كی كوشش كرو تاكہ اگر اس كی دوستی ناقابلِ اعتماد نظر آۓ تو خود كو اس سے محفوظ ركھ سكو۔ آپ ہی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: لَاتَرغَبَنَّ فِی مَوَدَّةٍمَن لَم تَكشِفہُ جس كو پہچانا نہیں ہے اور جس كی حقیقت سامنے نہیں آئ ہے اس كی محبت كی خواہش نہ كرو۔



back 1 2 3 4 next