اسلام ميل جول اور تعلقات کا دين يے جدائی کا نهيں



آزمائش كے طریقے

ائمہ علیہم السلام كی بہت سی احادیث میں دوست كی آزمائش كے طریقے بیان ہوۓ ہیں۔ حضرت امام علی ںكی ایك حدیث ملاحظہ ہو: عِندَ زَوَالِ القُدرَةِ یَتَبَیَّنُ الصَّدِیقُ مِنَ العَدُو اقتدار كے خاتمے پر دوست اور دشمن كا پتاچلتا ہے ۔ اگر شان و شوكت قدرت و قوت كے اعتبار سے تمام معاملات اچھی طرح چل رہے ہوں اورتمہیں علمی سیاسی سماجی اور مذہبی حیثیت حاصل ہو تو اس صورت میں سبھی اپنے آپ كو تمہارا دوست بتائں گے۔لیكن اگر اقتدار كا خاتمہ ہو جاۓ اور منصب و مقام مال و دولت تمہارے ہاتھ سے جاتے رہیں تب تمہارے دوست اور دشمن كی شناخت ہو گی۔ جو دوست ہو گاوہ تمہارے ساتھ رہے گا خواہ دولت مندی كے بعد تم فقیر اور قلاش ہی كیوں نہ ہو جائو اور قدرت و قوت كے بعد تم عاجز و ناتواں ہی كیوں نہ ہو جائو۔ حضرت امام صادق ںفرماتے ہیں: یَمتَحِنُ الصَّدِیقُ بِثَلاَثِ خِصَالٍ فَاِن كَانَ مُوَاتِیّاً فِیہَا فَہُوَ الصَّدِیقُُ المُصَافِی وَ اِلاّٰ كَانَ صَدِیقُ رَخَاءٍ لاَصَدِیقَ شِدَّةٍ تین چیزوں سے دوست كی آزمائش كی جاتی ہے۔ اگر وہ آزمائش پر پورا اترے تب تو مخلص اور سچا دوست ہے وگرنہ اچھے وقتوں كا دوست ہو گابرے اور مشكل وقت كا رفیق نہیں۔ (وہ تین چیزیں یہ ہیں)

1. تَبتَغِی مِنہُ مَالاً (اس سے مال طلب كرو) ۔اگر وہ مثبت جواب دے تو تمہارا دوست ہے اور اگر مالی یا اسی نوعیت كی كوئی دوسری قربانی دینے میں ہچكچاہٹ كا اظہاركرے تو اس سے امیدبے كار ہے۔

2. اَو تَامَنہُ عَلٰی مَالٍ (یااسے مال پر امین بنائو) ۔ اپنا كچھ مال اسكے سپرد كرو اور دیكھو كہ اس كی حفاظت كرتا ہے یا تمہارے ساتھ خیانت كرتا ہے۔

3.او تشارِكُہُ فِی مَكرُوہٍ (یا اپنی مشكلات میں اسے شریك كرو) ۔مصائب و مشكلات میں اسے شریك كرو تاكہ پتا چلے كہ ابتلا بلا اور مصیبت كے وقت كیا طرز عمل اختیار كرتا ہے ۔ اسی طرح دوست كی پركھ او پہچان كا ایك راستہ یہ ہے كہ یہ دیكھو كہ وہ كن لوگوں كے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ حضرت سلیمان سے نقل ہوا ہے كہ آپ نے فرمایا: لاٰتَحكَمُوا عَلیٰ رَجُلٍ فی شَیئٍ حَتّٰی تَنظُرُوا مَن لِصَاحِبُ فَاِنَّمَا یُعرَفُ الرَّجُلُ بِاَشكَالۃٍِ وَاَقرٰانِہِ وَیُنسَبُ اِلٰی اَصحٰابِہِ وَ اَخوٰانِہِ كسی كے بارے میں بھی اس وقت تك كوئی فیصلہ نہ كرو جب تك یہ نہ دیكھ لو كہ اس كا میل جول كن لوگوں كے ساتھ ہے۔ كیونكہ انسان اپنے دوستوں اور ساتھیوں كے ذریعے ہی پہچانا جاتا ہے ۔ اور اسے اس كے ساتھیوں اور دوستوں كی طرف نسبت دی جاتی ہے۔ حضرت علی ںنے فرمایا: لاَیُعرَفُ النَّاسُ اِلاّٰ بِالاِختِبَارِ فَاختَبِر اَہلَكَ وَ وَلَدَكَ فِی غَیبَتِكَ لوگ آزماۓ بغیر پہچانے نہیں جاتے ۔ لہٰذا اپنے اہلِ خانہ اور آل اولاد كو اپنی غیر موجودگی میں آزماؤ۔ یعنی دیكھو كہ یہ لوگ تمہاری غیر موجودگی میں تمہارے متعلق كیا باتیں كرتے ہیں تمہارا ذكر اچھے لفظوں میں كرتے ہیں یا برے لفظوں میں؟ وَ صَدیِقَكَ فِی مُصِیبَتِكَ اپنے دوست كو مصیبت كے وقت (آزمائو) ۔ یعنی دوست كو اس وقت آزمائو جب تم پر تمہارے اہل و عیال پر اور تمہارے مال و دولت پر كوئی مصیبت نازل ہو اور دیكھو كہ اس مصیبت كے وقت جب كہ تمہارے قدم لرز رہے ہیں تمہارا دوست كہاں كھڑا ہے؟ وَ ذَا القَرَابۃِ عِندَ فَاقَتِكَ رشتے داروں كو اپنی ناداری میں (آزمائو) ۔ اعزہ و اقربا كو فقر و تنگ دستی كے دنوں میں آزمائو۔ اگر تمہاری مدد اور معاونت كریں تو سچے دوست اور مخلص عزیز ہیں وگرنہ نہیں۔ وَ ذَا التَّوَدُّدِ وَ المَلَقِ عِندَ عُطلَتِكَ اور اپنی محبت كا دم بھرنے والوں اور خوشامد كرنے والوں كو اپنی بیكاری كی حالت میں (آزمائو) ۔ جو شخص اپنی شیریں بیانی كے ذریعے تمہاری خوشامد كرتا ہو اسے بے كاری اور پریشانی كے ایام میں آزماؤ۔ لِتَعلَمَ بِذاَلِكَ مَنزِلَتَكَ عِندَہُم اس طرح تمہیں ان كے نزدیك اپنی قدر و منزلت كا علم ہو جاۓ گا۔

بہترین دوست

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہترین دوست كے متعلق سوال ہوا ۔ اَیُّ الاَصحَابِ اَفضَلُ؟ قَالَ اِذَا ذَكَرتَ اَعَانَكَ وَ اِذَا نَسِیتَ ذَكَّرَكَ سب سے بہتر دوست كون ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: جب تم (خدا كو) یاد كرو تو تمہاری مدد كرنے والا اور جب تم (خدا كو) بھول جائو تو تمہیں (اس كی) یاد دلانے والا۔یعنی سب سے بہترین دوست وہ ہے كہ جب تم خدا كی یاد میں مشغول ہو جب تم دوستوں كے حقوق اور تمام اچھی باتوں كو یاد ركھے ہوۓ ہو تو وہ ان تمام امور میں تمہارا مددگار ہو۔ اور اگر تم خدا كو فراموش كر دو بھائوں كے حقوق اور اچھائوں كو بھلا بیٹھو تو وہ تمہیں ان امور كی پابندی كی جانب متوجہ كرے۔ ایسا ہی شخص تمہارا بہترین دوست ہے جو بھول اور غفلت كے عالم میں بھی تمہاری معاونت كرے اور یاد اور توجہ كے عالم میں بھی تمہارا مددگار ہو۔ ایك دوسرے مقام پر رسول خدا نے فرمایاہے: اِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِعَبدٍ خَیراً جَعَلَ لَہُ وَزِیراً صَالِحاً اِن نَسِیَ ذَكَّرَہُ وَ اِن ذَكَرَ اَعَانَہُ جب بھی پروردگارِ عالم كسی بندے كی بھلائ چاہتا ہے تو اس كے لۓ ایك اچھا وزیر مقرر فرما دیتا ہے كہ اگر وہ بھولا ہوا ہو تو (یہ وزیر) اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس سے تعاون كرتا ہے۔ یعنی اگر خدا كی طرف سے عائدكردہ فرائض اور ذمے داریوں كو بھولا ہوا ہو تو یہ دوست اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے اپنے فرائض اور ذمے داریاں یاد ہوں تو یہ دوست ان كی انجامدہی میں اسكی مدد كرتا ہے۔

دوست كا حق

اب ہم دوست كے حقوق كے بارے میں گفتگو كریں گے۔ حضرت امام سجاد ںسے رسالۂ حقوق میں نقل ہوا ہے: اَمَّا حَقُّ الصَّاحِبِ فَاَن تَصحَبَہُ بِالتَّفَضُّلِ وَ الاِنصَافِ البتہ دوست كا حق یہ ہے كہ اس سے فضل اور انصاف كے ساتھ پیش آئو۔ یعنی خدمت گزاری تعظیم و تكریم اور بخشش و عطا كے ذریعے اس كے ساتھ فضل و احسان كرو یا كم از كم اس كے ساتھ انصاف كرو اور اسے اس كا حق دو ۔وَ تُكرِمُہُ كَمَا تُكرِمُكاس كی ویسی ہی عزت كرو جیسی وہ تمہاری عزت كرتا ہے۔ وَلَاتَدَعہُ یَسبَقُ اِلٰی مَكرَمٍَۃ كہیں ایسا نہ ہو كہ وہ شرافت اور بزرگی میں پہل كر جاۓ۔ یعنی ادب و احترام اور جو چیزیں مكارمِ اخلاق میں شمار ہوتی ہیں ان میں تم اس پر مقدم رہو ۔ فَاِن سَبَقَ كَافَأتَہُ اور اگر وہ پہل كر جاۓ تو اسے اسكا بدلا دو۔وَ تَوَدُّہُ كَمَا یَوَدُّكَ وَ تَزجُرُہُ عَمَّا یَہُمُّ بِہِ مِن مَعصِیّۃٍَ اس كے ساتھ اسی طرح محبت سے پیش آئو جس طرح وہ تمہارے ساتھ محبت سے پیش آتا ہے اور اسے اس گناہ سے روكو جس كا وہ مرتكب ہو تا ہے۔ اگر دیكھوكہ وہ ذوق و شوق كے ساتھ گناہ كرتا ہے اور اس كی طرف راغب ہے تو دوستی كا حق یہ ہے كہ تم اسے ارتكاب ِ گناہ سے منع كرو۔ وَ كُُن عَلَیہِ رَحمَةً وَ لَاتَكُن عَلَیہِ عَذَاباً 

اس كے لۓ رحمت بنو عذاب نہ بنو۔ بیماری فقر و فاقے خوشی اور غمی ہرحال میں اس كے لۓ رحمت ثابت ہو ان مشكلات میں اسے فراموش نہ كرو۔ حضرت امام زین العابدین ںسے روایت ہے:

وَ حَقُّ الخَلِیطِ اَن لَاتَغُرَّہُُ وَ لَاتَغُشَّہُ وَ لَاتَخدَعُہُ وَ تَتَّقِی اللّٰہَ تَبَارَكَ َو َتعَالیٰ فِی اَمرِہِ دوست كا حق یہ ہے كہ اسے دغا نہ دو نہ اس كے ساتھ فریب كرو نہ ہی اسے دھوكہ دو اور اس كے بارے میں پروردگارِ عالم سے ڈرو۔ مفضل كہتے ہیں كہ: دَخَلتُ عَلَی اَبِی عَبدِ اللّٰہِ فَقَالَ لِی: مَن صَحِبَكَ؟ فَقُلتُ: رَجُلٌ مِن اِخوَانِی قَالَ: فَمَا فَعَلَ؟ فَقُلتُ: مُنذُ دَخَلتُ المَدِینَةَ لَم اَعرِف مَكاَنَہُ فَقَالَ لِی :اَمَا عَلِمتَ اَنَّ مَن صَحِبَ مُؤمِناً اَربَعِینَ خَطوَةً َساَلہَ ُاللہُ عَنہُ یَومَ الِقیَامَۃِ میں حضرت امام صادق ںكی خدمت میں حاضر ہوا ۔حضرت نے مجھ سے فرمایا: تمہارا ساتھی كون تھا (یعنی سفر میں تمہارے ساتھ كون تھا؟) میں نے عرض كیا: میرا ایك بھائ (یعنی میں اسے نہیں جانتا تھا) فرمایا: وہ كیا كام كرتا ہے؟ میں نے عرض كیا: مدینہ تك مجھے معلوم نہ ہو سكا كہ وہ كیا كرتا ہے؟ امام (ع) نے فرمایا :كیا تمہیں معلوم نہیں كہ جو كوئی بھی كسی مومن كے ساتھ چالیس قدم سفر كرے گا تو پروردگارِ عالم روزِ قیامت اس سے اس كے متعلق سوال كرے گا۔

لہٰذا انسان جس كسی كے ساتھ بھی سفر كرتا ہے اسے اس پر حقِ ہم نشینی حاصل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اسے معلوم كرنا چاہے كہ وہ كیا كرتا ہے؟ كہاں جا رہا ہے؟ اس كے حال احوال كیسے ہیں؟ اور اس وقت تك اس سے جدا نہ ہو جب تك ان تمام امور كے بارے میں واقفیت حاصل نہ كرلے۔ حضرت علی ں كا ایك واقعہ ملاحظہ ہو: ایك روز حضرت علی ں ایك یہودی كے ساتھ سفر كر رہے تھے۔ آپ ایك راستے سے جانا چاہتے تھے جبكہ اس یہودی كی خواہش تھی كہ دوسرا راستہ اختیار كیا جاۓ۔ لیكن امام نے اس كا ساتھ نہ چھوڑا (اور اس كی اختیار كردہ راہ پر آپ بھی چلنے لگے) یہاں تك كہ وہ دوراہا آ گیا جہاں سے آپ كو اس یہودی سے جدا ہونا تھا۔ یہاں پہنچ كر بھی آپ اس ے علیحدہ نہ ہوۓ اور كچھ دور تك اس كے ساتھ چلتے رہے۔ یہودی نے كہا: اے ابوالحسن ! آپ كا راستہ تو اس طرف ہے كیا آپ كا خیال بدل گیا ہے اور آپ نے اپنی منزل بدل دی ہے؟ امام نے فرمایا :نہیں ایسا نہیں ہے بلكہ پیغمبرِ اسلام صلی االله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے كہ: جب كبھی تم كسی كے ساتھ سفر كرو تو تم پر اسكا حق یہ ہے كہ امن كے مقام تك اس كے ہمراہ چلو اور اسكے بعد اس سے جدا ہو۔ یہودی نے پوچھا: كیا یہ آپ كے پیغمبر كا فرمان ہے ۔امام نے جواب دیا: ہاں۔ یہودی نے كہا :اپنا ہاتھ بڑھایۓ ۔ (آپ نے ہاتھ بڑھایا) یہودی نے آپ كے بڑھے ہوۓ ہاتھ پر اپنا ہاتھ ركھا اور كہا: اَشہَدُ اَن لاَ اِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہُ وَ اَن َّمُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں كہ االله كے سواكوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس كے رسول ہیں) اس طرح وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔

ہم اس واقعے اور اما م علی كے یہودی كے ساتھ اس سلوك سے یہ نتیجہ اخذ كرتے ہیں كہ مناظرے اور علمی وفلسفی بحثوں كی نسبت اسلامی اخلاق كے ذریعے كہیں زیادہ دوسروں كو اسلام كی طرف جذب كیا جاسكتا ہے۔

كیونكہ اس طرح كے عمل عقل قلب احساس اور شعور پر چھا جاتے ہیں۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے كہ اپنے عمل كے ذریعے اسلامی اخلاق كی جانب لوگوں كی رہنمائی كریں جیسے كہ امام صادق نے فرمایا ہے: كُونُوا دُعَاةً لِلنَّاسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِكُم لِیَرَوا مِنكُم الصِّدقَ وَ الخَیرَ وَ الوَرَعَ فَاِنَّ ذَالِكَ دَاعِیَۃٌ لوگوں كو اپنی زبان كے بغیر (عمل سے) اسلام كی طرف دعوت دو۔ لوگ تم میں سچائ عملِ خیر اور پرہیزگاری دیكھیں ۔ بلاشبہ یہی چیزیں دعوت دیتی ہیں۔ پس اگر ہم حق كی راہ اپنا كر لوگوں كے ساتھ سچائ پر مبنی طرز عمل اپنائں پارسائ اور امانت كو اپنا شعار بنائں تو ہمارا یہ عمل لوگوں كو خودبخوداسلام كی جانب لانے كا موجب بنے گا كیونكہ لوگ اس طرزِ عمل میں اسلام كو مجسم دیكھیں گے۔ مولا علی ںكی ایك حدیث ملاحظہ فرمائں: لاٰتَقطَعُ صَدِیقاً وَ اِن كَفَرَ دوستی كے رشتے كو نہ توڑو خواہ تمہارا دوست كافر ہو۔لہٰذادوستوں سے میل ملاپ اور تعلقات ضروری ہیں خواہ وہ آپ كے ایمانی دوست ہوں یاسماجی زندگی میں بن جانے والے دوست۔ ہم پر لازم ہے كہ اپنے دوستوں سے دوستی كا رشتہ قطع نہ كریں چاہۓ وہ مومن ہوں چاہے كافر۔

اس حدیث سے امام كی یہ مراد محسوس ہوتی ہے كہ ہمیں كفار كے ساتھ بھی اسلامی اخلاق كے ساتھ پیش آنا چاہۓ ممكن ہے ہمارے اس سلوك سے وہ اسلام كی طرف مائل ہو جائں۔ آخر میں ہم امام علی ںكا ایك قول نقل كر رہے ہیں جو نصیحت و موعظہ بھی ہے اور یہ بھی بتاتا ہے كہ انسان كے واقعی دوست كون سے افراد ہیں۔ فرماتے ہیں: اِنَّ لِلمَرئِ المُسلِمِ ثَلاَثَۃُ اَخِلاَّء ہر مسلمان انسان كے لۓ تین طرح كے دوست ہیں۔ فَخَلیِلٌ یَقُولُ لَہُ اَنَا مَعَكَ حَیّاً وَ مَیتِّاً وَ ہُُوَ عِلمُہُ ایك دوست ایسا ہے جو اس سے كہتا ہے كہ میں زندگی او ر موت دونوں ہی میں تمہارے ساتھ ہوں ۔یہ اس كا علم ہے۔ انسان كا علم موت كے وقت بھی اس كے ساتھ اسی طرح رہے گا جیسے زندگی میں اس كے ساتھ تھا البتہ جب عمل كے ہمراہ ہو۔ وَ خَلِیلٌ یَقوُلُ لَہ ُاَنَا مَعَكَ حَتَّی تَمُوتَ وَ ہُوَمَا لُہُ دوسرا دوست كہتا ہے كہ میں تمہارے ساتھ ہوں لیكن صرف تا دمِ مرگ۔ یہ اس كا مال ہے۔ انسان كا مال اس كے ہمراہ اس وقت تك ہے جب تك وہ مرا نہیں ہے۔ مرنے كے بعد اسے ایك كفن دیكر چھوڑ دیتا ہے۔ وَ خَلِیلٌ یَقُولُ لَہُ اَنَا مَعَكَ اِلَی بَابِ قَبرِكَ ثُمَّ اُخَلِّیكَ وَ ھُوَ وَلَدُہُ اور تیسرا دوست اس سے كہتا ہے كہ میں تمہارے ساتھ ہوں البتہ تا لبِ گور اس كے بعد تم كو چھوڑ دوں گا۔ یہ انسان كا فرزند ہے۔

انسان كو ان تینوں میں سے كسے دوستی كے لۓ منتخب كرنا چاہۓ؟ جواب واضح ہے ایسے علم كو جو عمل كا باعث ہو۔ بعض احادیث میں آیا ہے كہ جب انسان حالتِ احتضار میں ہوتا ہے اور عالمِ آخرت كی طرف سفر كے لۓ تیار ہوتا ہے تو مال اولاد اور اس كا عمل اس كے سامنے مجسم ہوتے ہیں۔مرنے والا اولاد سے كہتا ہے كہ میں نے اپنی زندگی تمہارے لۓ وقف كردی اور اس وقت مشكل میں ہوں تم میرے لۓ كیا كرسكتے ہو؟ اس وقت اولاد كہتی ہے: ہم قبر تك تمہارے ساتھ آئیں گے۔ پھر وہ مال كی طرف رخ كرتا ہے اور كہتا ہے: میں نے تجھے جمع كرنے كے لۓ بیابان اور وسیع و عریض صحرا طے كۓ۔ اس وقت میں مشكل میں ہوں تو میرے لۓ كیا كرسكتا ہے؟ وہ جواب میں كہتا ہے: تم اپنا كفن مجھ سے لے سكتے ہو۔ اس منزل پر وہ اپنے عمل كی طرف متوجہ ہوتا ہے اور كہتا ہے: تو میرے لۓ بہت بھاری تھا۔ اس وقت عمل كہتا ہے: میں تمہاری قبر میں تمہارے ساتھ ہوں حشر تك تمہارے ہمراہ ہوں اور جب تم بہشت یا جہنم كی طرف جا رہے ہوگے تب بھی تمہارے ساتھ ہونگا۔ جی ہاں ! قرآن كریم نے عمل كے متعلق فرمایا ہے: وَ قُل ِاعمَلُوا فَسَیَری اللّٰہُ عَمَلَكُم َو رَسُولُہُ وَ المُؤمِنُونَ اور پیغمبر ان سے كہہ دیجۓ كہ تم لوگ عمل كرتے رہو كہ تمہارے عمل كو خدا اس كا پیغمبر اور مومنین سب دیكھ رہے ہیں۔ (سورئہ توبہ ۹ آیت ۱۰۵) نیز دوسرے مقام پر فرمایا: فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَہُ وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرَہُ جو ذرّہ برابر بھی نیكی كرے گا اسے دیكھے گا اور جو ذرّہ برابر بھی برائ كرے گا اسے دیكھے گا۔ (سورئہ زلزلۃ ۹۹ آیت ۷۔۸)

میرے عزیزو! آئو خدا سے دوستی كریں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ كی پیروی كریں جو پروردگار كے دوست بنے اور اسی طرح پروردگارِ عالم نے بھی ان سے دوستی كی وَاتَّخَذَہُ خَلِیلاً پروردگارِ عالم نے انہیں اپنے دوست كے بطور چن لیا اور ہر ایك كو پہچنوایا۔ حضرت ابراہیمں صرف خدا كے لۓ ہوگۓ اور اس كے سامنے پوری طرح تسلیم ہوگۓ۔ آیۓ اپنے خدا كے ہم نشین ہوتے ہیں اسی طرح جیسے ایك دوست دوسرے دوست كے یا ایك عاشق اپنے معشوق كے ہم نشین ہوتا ہے۔ اپنی روح كو اس كے سپرد كر كے حقیقی ایمان پیدا كریں اس سے عشق كریں نیك عمل انجام دیں اور تقویٰ كو اپنا شعار قرار دیں اور اس سے دنیا و آخرت كی بھلائ طلب كریں۔ اَلیَومُ عَمَلٌ وَ لَاحِسَابَ وَ غَداً حِسَابٌ وَ لاَ عَمَلَ آج عمل كا دن ہے حساب كا نہیں اور كل حساب كا دن ہو گا عمل كا نہیں۔



back 1 2 3 4