حسد



حضرت على عليہ السلام ايک جگہ حسد کے اس نقصان کا ذکر فرماتے ھيں جو بدن سے متعلق ھوتا ھے چنانچہ ارشاد فرمايا : مجھے حاسدوں سے اس بات پر بھت تعجب ھوتا ھے کہ اپنے جسموں کى سلامتى سے غفلت کيوں برتتے ھيں ۔( ۴)

ڈاکٹر فرانک ھور# کھتا ھے : نفسانى احساسات کے مصائب و آلام پر اپنے افکار و ذوات سے دور کردو ۔ اس لئے کہ يہ چيزيں روحانى ابليس ھيں ۔ يہ ابليس صرف انسان کے فکرى نظام ھى کو درھم برھم نھيں کرتے بلکہ جسم کے اندر زھريلے خلايا کو تقويت پھونچاتے ھيں اور اسى کے ساتھ جسم کو ضرورت سے زيادہ ضرر پھونچاتے ھيں ۔ يہ دوران خون کو سست کر ديتے ھيں ، اعصاب کو کمزور کر ديتے ھيں ، روحانى و جسمانى نشاط کو شکست وريز ميں مبتلا کر ديتے ھيں ، زندگى کے ھدف و مقصد کو ختم کر ديتے ھيں فکر کو کمزور کر ديتے ھيں ۔ اس لئے انسان پر واجب ھے کہ ان دشمنوں کو اپنے گھر کے ماحول سے نکال دے کيونکہ يہ سمّ قاتل ھيں ۔ ان کو انسانى زندگي سے دور قيد کر دينا چاھئے اور جو ايسا کرے گا وہ ديکھے گا کہ اس کا ارادہ قوى ھو گيا اور وہ اپنى قوت ارادى کے سھارے مشکلات حيات پر قابو پالے گا ۔( ۵)

حضرت على عليہ السلام فرماتے ھيں : حسد جسد کو فنا کر ديتا ھے ۔( ۶) دوسرى جگہ فرماتے ھيں : حسد سے بچو يہ انسانى روح کو معيوب کر ديتا ھے ۔ (۷)

ايک علم النفس کا ماھر کھتا ھے : بھت زيادہ حسد نفسانى آلام ميں سے ھے يہ نفس کو بھت تکليف پھونچاتا ھے اس کو غلطى پر آمادہ کرتا ھے ۔ اس پر بھت ظلم و ستم کرتا ھے ۔ آپ يہ جان ليجئے کہ حاسد کے بھت سے اعمال خود اس کے ارادے سے سر زد نھيں ھوتے بلکہ عفريت حسد کے حکم سے انجام پاتے ھيں ۔(۸) امام زين العابدين عليہ السلام مقام دعا ميں فرماتے ھيں : خدا يا ميرے سينے کو حسد کى بيمارى سے محفوظ رکہ تاکہ ميں کسى کى خوش بختى و نيک بختى کو حسرت کى نگاہ سے نہ ديکھوں ،مجھے حسد سے اس طرح دور رکہ کہ ھميشہ دوسروں کى سعادت و سلامت کا خواھشمند رھوں اور عين اس حال ميں مجھے اس کى بھي توفيق دے کہ جب تيرى دينى و دنياوي نعمتوں کو دوسروں ميں ديکھوں اور وہ سب پارسا و پرھيز گار ھوں، کشادہ رو ،کشادہ دست ھوں ، مھربان و مالدار ھوں تو تجھ سے اور تيري ذات اقدس سے ان کے لئے بھتر سے بھتر ترکى خواھش کروں ۔ صرف تيري ذات سے جو يگانہ و يکتا و بے ھمتا ھے ،تمنا رکھتا ھوں ۔

Ú¾Ù… Ú©Ùˆ يہ چاھئے کہ پليد Ùˆ پست قسم Ú©Ù‰ وہ تمنا ئيں جو انسان Ú©Ù‰ زندگي Ú©Ùˆ تلخ کر ديتى Ú¾ÙŠÚº ان Ú©Ùˆ اپنى روحانى ترقى Ùˆ تکامل Ú©Ù‰ راہ ميں سد سکندرى نہ بننے ديں Û” اور اپنے افکار Ùˆ خيالات Ú©Ùˆ بلند مقاصد اور اعليٰ صفات Ú©Ù‰ طرف مرکوز رکھيں کيونکہ شائستہ تمنائيں Ú¾Ù‰ انسان Ú©Ùˆ ايک نہ ايک دن اس Ú©Û’ نيک مقاصد تک پھونچا ديتى Ú¾ÙŠÚº Û” حضرت على عليہ السلام فرماتے Ú¾ÙŠÚº : نيک خصائل ،اچھے صفات ØŒ شيريں کلامى ØŒ اور بلند مطالب Ú©Ù‰ طرف رغبت پيدا کرو کہ ان Ú©Ù‰ عظيم جزا اور اچھا نتيجہ تم Ú¾Ù‰ Ú©Ùˆ ملے گا Û” ( Û¹) 

ڈاکٹر ماردن کھتا ھے : اگر تم نے اپنے افکار کو مخصوص اوصاف کے حصول پر مرکوز رکھا تو آخر کاران اوصاف تک پھونچکر رھو گے کيونکہ فطرى موجودات فطرى افکار کا نتيجہ ھيں ۔ اگر تم کاھلى و عياشى کي آرزو ميں رھو گے تو آخر ميں کاھل و عياش ھو جاؤ گے ۔ اور اگر تمھارے سر ميں سود ا ھو اور ھر چيز تمھاري نظر ميں تيرہ و تار ھى نظر آئے تو تم بھت ھي تھوڑى مدت ميں اس سے نجات پا سکتے ھو اور اس کا طريقہ يہ ھے کہ اپنى فکرکو بدل دو يعنى دنيا کى وہ چيزيں جو نشاط آور ھيں ،مسرت بخش ھيں ، ان کے بارے ميں غور و فکر کرنے لگو ، اگر اچھے اخلاق کى تمنا ھے تو ان کے بارے ميں بڑے صبر و تحمل سے سوچو اور تم اپنے اس استقلال مزاجى کي وجہ سے اپنے ذھن کو اچھے اوصاف سے متصف ھونے پر آمادہ کر لو گے اور پھر تمھارى رسائى وھاں تک ھو جائے گى اور جن صفات کو بھى تم حاصل کرنا چاھو ان کى تکرار کى صرف فکر ھى نہ کرو بلکہ ان کو اپنى پيشانيوں پر لکہ لو اپنے ميں عزم کر لو اور سب سے کھتے پھرو کہ تم ان چيزوں کو حاصل کرنا چاھتے ھو تو ايک قليل مدت کے بعد تم ديکھو گے کہ تمھارے افکار تم کو ان مقاصد کى طرف اس طرح کھينچيں گے جيسے مقناطيس کو لوھا کھينچتا ھے ۔(۱۰ )

ڈاکٹر مان کھتا Ú¾Û’ : اصول علم نفس ميں Ú¾Û’ جسے Ú¾Ù… Ù†Û’ بعض مواقع پر ديکھا بھى Ú¾Û’ اور تجربہ بھى کيا Ú¾Û’ کہ کسى عمل Ú©Û’ بارے ميں سوچنے کا نتيجہ يہ ھوتا Ú¾Û’  کہ Ù¾Ú¾Ù„Û’ تو وہ بھت Ú¾Ù‰ خفيف صورت ميں انجام پاتا Ú¾Û’ مثلاً اگر Ú¾Ù… مٹھى باندھنے Ú©Û’ بارے ميں غور کرنے Ù„Ú¯ÙŠÚº تو دونوں ھاتھوں Ú©Û’ عضلات تھوڑے سے تن جاتے Ú¾ÙŠÚº اور اعصاب مٹھي باندھنے Ú©Û’ لئے آمادہ Ú¾Ùˆ جاتے Ú¾ÙŠÚº ØŒ جس Ú©Ùˆ آپ اس دقيق حساب کرنے والے آلہ Ú©Û’ ذريعہ تجربہ بھى کر سکتے Ú¾ÙŠÚº ،جس Ú©Ùˆ دو کالو  لوميتر کھتے Ú¾ÙŠÚº Û” آپ Ú©Ùˆ بعض ايسے لوگ بھى مليں Ú¯Û’ جن Ú©Û’ محض ارادہ کرنے پر ان Ú©Û’ جسم Ú©Û’ رونگٹے Ú©Ú¾Ú‘Û’ Ú¾Ùˆ جاتے Ú¾ÙŠÚº اور بعض لوگوں Ù†Û’ اس Ú©Ù‰ مشق بھم پھونچائى Ú¾Û’ کہ اپنے ھاتھوں Ú©Ù‰ بعض رگوں Ú©Ùˆ سکوڑ ليں Û” اس کا طريقہ يہ Ú¾Û’ کہ وہ اپنے Ø°Ú¾Ù† Ú©Ùˆ اس بات پر متمرکز کر ديتے Ú¾ÙŠÚº کہ ان Ú©Û’ ھاتہ برف ميں Ù¾Ú‘Û’ ھوئے Ú¾ÙŠÚº اور اس سوچ کا نتيجہ يہ ھوتا Ú¾Û’ کہ ان Ú©Ù‰ رگيں اسى طرح سکڑ جاتى Ú¾ÙŠÚº Û” جيسے جب ھاتھوں Ú©Ùˆ واقعى برف ميں رکہ ديا گيا Ú¾Ùˆ Û” Ú©Ú†Ú¾ لوگ Ú¾ÙŠÚº جو اپنى آنکھوں Ú©Ù‰ پتليوں Ú©Ùˆ چھوٹي اور بڑى کر ليتے Ú¾ÙŠÚº وہ لوگ يہ کرتے Ú¾ÙŠÚº کہ اپنى فکر Ú©Ùˆ ايک مرکز پر محدود کر Ú©Û’ اپنے Ú©Ùˆ باربار تلقين کرتے Ú¾ÙŠÚº اور پھر وہ پتلى اسى طرح Ú¾Ùˆ جاتى Ú¾Û’ جيسا کہ وہ چاھتے Ú¾ÙŠÚº Û”

حقائق کا سمجھ لينا ھمارے افکار و ارادوں ميں بھت زيادہ موثر ھے يہ خواھشات ھى ھيں جو ھمارے افکار پر پردہ ڈال کر قوت ادراک ميں تاريکى پيدا کر ديتى ھيں ۔ بھتر طريقہ يہ ھے کہ سب سے پھلے آئينہ فکر و عقل کو تقويٰ سے صيقل کيا جائے تاکہ حقائق و واقعيات کو اس ميں مشاھدہ کيا جا سکے ۔ اس کے بعد قوى ارادہ اور مسلسل مجاھدات کے ذريعے حسد اور زھر آلود خواھشات کو دل سے نکال کر پھينک ديں اور بغض و کينہ کى زنجيروں کو توڑ ديں تاکہ روح غم کى قيد سے آزاد ھو سکے ۔ اور برے صفات کى جگہ خير خواھى و اچھے صفات متحقق ھو سکيں ۔

حوالے

۱۔سورہ ٴ نساء/ ۳۲



back 1 2 3 4 next