کلینی کے بارے میں



احمد بن محمد بن عیسیٰ، احمد بن ادریس قمی(م۳۰۶ھ)، احمد بن محمد بن سعید ہمدانی، جو ابن عقدہ سے معروف تھے،(۳۳۳ق)، احمد بن محمد بن عاصم کوفی،احمد بن مہران، اسحاق بن یعقوب، حسن بن حنیف، حسن بن فضل بن یزید یمانی، حسین بن حسن حسینی اسود،حسین بن حسن ہاشمی حسنی علوی، حسین بن علی علوی، حسین بن محمد بن عمران اشعری قمی، حمید بن زیاد نینوایی(۳۱۰ق)داؤد بن کورہ قمی، سعد بن عبد اللہ بن جعفر حمیری، علی بن ابراہیم قمی(م۳۰۷ ق)، علی بن حسین سعد آبادی، علی بن عبد اللہ خدیجی اصغر، علی بن محمد بن ابراہیم بن ابان رازی(آپ کے خال محترم معروف بہ علان رازی)، علی بن محمد بن ابی قاسم بندار، عبد اللہ بن احمد بن عبد اللہ برقی،(22)علی بن موسیٰ بن جعفر کمیدانی، قاسم بن علاء، ابوالحسن محمد بن عبد اللہ اسدی کوفی(ساکن رے)، محمد بن حسن صفار(۲۹۰ق)، محمد بن علی بن معمر کوفی، محمد بن یحیی عطار،کل ۳۵ افراد اوران کے علاوہ۔

شاگردان کلینی

چوتھی صدی ھجری کے ہمارے مشہور علماء جن کی بود و باش ایران و عراق میں تھی اور جوبڑے نامی گرامی فقیہ محدث تھے اور چوتھی صدی کے اواخر میں ہمارے بہت سے علماء کے استاد تھے تقریباً سبھی جناب شیخ کلینی مؤلف الکافی کے شاگرد تھے ،احمد بن ابراہیم معروف بہ ابن ابی رافع صیمری ، احمد بن کاتب کوفی، احمد بن علی بن سعید کوفی، احمد بن محمد بن علی کوفی، ابو غالب احمد بن محمد زراری (۲۸۵۔ ۳۶۸ ق)جعفر بن محمد بن قولویہ قمی(۳۶۸ ق) ۔ عبد الکریم بن عبد اللہ بن نصر بزاز تنیسی،علی بن احمد بن موسیٰ دقان ، محمد بن ابراہیم نعمانی، معروف بہ ابن ابی زینب جو کہ شیخ کلینی کے مخصوص شاگرد اور آپ سے بہت قرب رکھتے تھے اور انھوں نے پوری کتاب الکافی اپنے قلم سے اتاری تھی اور انھوں نے شیخ کلینی سے علم و ادب سیکھنے کے بعد اجازہ روایت بھی دریافت کرلیا تھا، محمد بن احمد سنانی زہری مقیم رے،ابو الفضل محمد بن عبد اللہ بن مطلب شیبانی ، محمد بن علی ماجیلویہ ، محمد بن محمد بن عصام کلینی ، ہارون بن موسیٰ تلعکبری شیبانی(م۳۸۵ ھ ق)جمعاً ۱۵ افراد اور ان کے علاوہ دوسرے بزرگ بھی شیخ کلینی کے شاگرد تھے ۔

تالیفات کلینی

شیخ اجل طوسی اور ماہر رجالیات نجاشی نے ذیل کی کتابوں کو جناب شیخ کلینی کی تالیفات میں سے شمار کیا ہے :

۱۔ کتاب الرجال

۲۔ کتاب الرد علی القرامطۃ(23)

۳۔ کتاب رسائل الائمۃ(ع)

۴۔ کتاب تعبیر الرؤیا

۵۔ مجموعۂ شعر(جو فضائل ومناقب اہل بیت(ع) میں شعراء کے مختلف قصائد کا مجموعہ ہے)
۶۔ کتاب الکافی.

وفات و مرقد کلینی

ثقۃ الاسلام کلینی ۔۔۔ دنیائے علم کا چشم و چراغ، شیعیت اور بغداد کے تمام علماء کا سند افتخار اور عظیم الشان محدث۔۔ عقل و خرد پسند مکتب اہل بیت عصمت و طہارت کی رونق، تصنیف و تالیف میں بے حد رنج و مشقت جھیلنے کے بعد آخر کار ۳۲۸ ھ یا۳۲۹ ھجری میں کہ جو امام زمانہ (ع) کی غیبت کبریٰ کا آغاز ہے شہر بغداد میں اس دنیائے فانی سے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور آپ کی بلند پرواز روح جنت الفردوس کی طرف پرواز کر جاتی ہے آپ کی ابدی آرام گاہ آج بغداد میں دریائے دجلہ کے قدیمی پل کے کنارے بڑی معروف اور مسلمانوں کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے (کلینی کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے)

شیخ طوسی نے اپنی کتاب الفہرست میں کلینی کی وفات ۳۲۸ ھ ثبت کی ہے لیکن نجاشی نے الرجال میں اور خود شیخ طوسی نے اپنی دوسری کتاب الرجال میں ۔۔ دونوں کتابیں الفہرست کے بعد لکھی گئی ہیں۔۔۔ صراحت سے بیان کیا ہے کہ کلینی نے ۳۲۹ ھجری میں وفات پائی ہے ہم بھی اسی تاریخ کو معتبر مانتے ہیں اسی سال جناب شیخ اجل ابوالحسن صیمری امام زمان(ع) کے چوتھے اور آخری نائب خاص بھی وفات پاگئے اور ان کی رحلت کے بعد امام زمانہ(ع) کی غیبت کبریٰ کے دور کا آغاز ہوا۔
اور شیعہ معاشرہ ایک خاص قسم کی ہیجانی حالت سے روبرو ہوا لیکن کتاب الکافی جیسی ستارے کے مانند چمکتی ہوئی کتاب کا وجود شیعوں کی امید کے تاریک شبستان کو منور کئے ہوئے ہے تا کہ بعد کے علماء و دانشمندان شیخ کلینی کےکام کو وسعت اور عمومیت بخشیں اور آثار اہل بیت عصمت طہارت(ع) کی نور افشانی کریں۔
________________________________________

1.     شہید سعید Û” قاضی نور اللہ شوشتری مجالس المومین ج۱، ص۹۲ چاپ اسلامیہ Ú©Û’ حاشیہ میں لکھتے ہیں :میں Ù†Û’ قطب الدین رازی Ú©ÛŒ تحریر دیکھی ہے کہ:رے ØŒ نسبت Ú©Û’ وقت "ریئی پڑھا جانا چاہئے"رازی"میں "ر"Ú©Û’ اضافہ Ú©ÛŒ وجہ یہ ہے کہ"ری"اور "راز"Ú©Û’ دواشخاص Ù†Û’ اس شہر Ú©ÛŒ بنیاد ڈالی تھی اور جب اس شہر Ú©Û’ نام رکھنے Ú©ÛŒ باری آئی تو دونوں میں اختلاف ہو گیا پھر Ø·Û’ پایا کہ شہر کا نام ایک Ú©Û’ نام "رے" ہو اور نسبت Ú©Û’ وقت دوسرے Ú©Û’ نام پر"رازی"کہا جائے
2.     مجعم البلدان، ج۳، ص۱۱۷۔
3.     افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے میں لقب"ثقۃ الاسلام "یعنی ایسا عالم دین جو بہت مورد اعتماد موثق اور اسلام ومسلمین Ú©Û’ لئے سند وثاقت ہے Û”Û” اس قدر اہمیت رکھتا تھا کہ پہلی بار تمام شیعہ فہقاء ومحدثین Ú©Û’ رأس Ùˆ رئیس کلینی Ú©Û’ لئے استعمال کیا گیا لیکن آج Ú©Ù„ القاب وخطابات اتنا اپنی قدریں Ú©Ú¾Ùˆ Ú†Ú©Û’ ہیں کہ ہر کس وناکس ØŒ جاہل ریاکار Ú©Ùˆ بھی"ثقۃ الاسلام کہا جارہا ہے!برعکس نہند نام زنگی کافور۔
4.     شرح مشیخۃ من لایحضرہ الفقیہ ص۲۶۷۔
5.     رجال الطوسی ص۴۹۵ Û”
6.     الفہرست شیخ طوسی ص۱۳۵۔
7.     رجال النجاشی، ص۲۶۶۔
8.     مقدمۃ الکافی۔
9.     مقدمۃ الکافی بہ نقل از وصول الاخیار ص۶۹۔
10. .مقدمۃ الکافی بہ نقل از وصول الاخیار ص۶۹۔
11. مرآ ۃ العقول ج۱، ص۳۔
12. مقدمۃ الکافی۔
13. مقدمۃ الکافی۔
14. ابن اثیر جزری تین سنی علماء کا نام ہے جو ایک دوسرے کے بھائی تھے جن کا تعلق موصل کے نزدیک ایک جزیرہ سے تھا اور لقب "جزری"اسی کی طرف منسوب ہے ۔ پہلا بھائی "مبارک بن ابی الکرم اثیر الدین محمد جزری(م۶۰۶ ق)موصل میں پیدا ہوا جو کتاب النہایہ اور کتاب جامع الاصول کا مؤلف ہے۔دوسرا بھائی "عز الدین علی"بن اثیر(م۶۳۰ ق)مؤلف کتاب اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، اللباب فی تہذیب الاسماء الکامل فی التاریخ ہے اور تیسرا بھائی " نصر اللہ"بن ابی الکرم (م۶۳۷ق) منشی وکاتب اور مؤلف کتاب المثل السائر فی ادب الکاتب والشاعر وغیرہ ۔ جو کاظمین میں دفن ہے۔
15. اصل حدیث کے الفاظ یہ ہیں :"ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ فی رأس کل مأۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا"ابن اثیر نے ہر صدی کے آغاز میں ایک یا کئی سنی علماء ، خلفاء ، عرفاء کا نام لیا ہے جو مجدد دین نگہبان اسلام تھے ۔ یہ ایک سنی حدیث ہے لیکن دونوں فرقوں کے علماء نے اس سے استناد کیا ہے اور بہت سے لوگوں کوکو مجدد مذہب کے عنوان سے ذکر کیا ہے ، ان سطروں کے لکھنے والا اس سلسلہ میں کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔
16. الرجال ابو علی حائری ، ص۲۹۸ بہ نقل از تعلیقۂ وحید بہبہانی، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، ص۵۲۵۔
17. الکامل ابن اثیر، ج۶، ص۲۷۴۔
18. قاموس الرجال ، ج۴، ص۲۵۶۔
19. لسان المیزان، ص۵،، ص۴۳۳۔
20. روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، ص۵۲۵
21. کلینی کے اساتذہ اور شاگردوں کے تذکرہ ہم نے مقدمہ الکافی اور سوانح حیات کلینی سے اقتباس کیا ہے۔
22. مقدمہ کافی میں ان کی جگہ"علی بن محمد برقی"کا نام درج ہے جو درست نہیں ہے۔
23. قرامطہ :وہ فرقہ تھا کہ جو عقیدہ رکھتا تھا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزند اسماعیل امام غائب ہیں اور حقیقت میں فرقۂ اسماعیلیہ کی بنیاد یہی فرقہ تھا اس فرقہ کے "قرامطہ"یا "قرمطی"سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے ایسا دعوی کیا تھا وہ کوفہ کے اطراف میں رہنے والا "قرمط" نامی شخص تھا اور اس کے پیرو کار اسی کے نام سے پکارے جانے لگے قرمطہ بتدریج اپنے عقیدہ و عمل میں بہت زیادہ انحراف کا شکار ہوئے اور انھوں نے عامہ مسلمین کے خلاف بہت سے بغاوتیں کی ہیں۔

 



back 1 2 3 4 5