اسباب نزول



ان دونوں عبارتوں کے درمیان کیا فرق ھے؟ اکثر مفسرین تو ان دونوں تعبیرات کے درمیان کسی فر ق کے قائل نھیں ھوئے ھیں ھر وہ مناسبت جس کے تحت آیت یا آیات نازل ھوئیں کبھی انھیں سبب نزول سے تعبیر کیا گیا اور کبھی شان نزول اعم ھے اسباب نزول سے جب بھی کوئی واقعہ یا مناسبت کسی شخص کے بارے میں ھوچاھے وہ واقعہ گذشتہ زمانے میں پیش آیاھو یاحال ومستقبل میں پیش آنے والا ھو یا کوئی حکم ھوتو ان تمام موارد کو آیات کا شاٴن نزول کہتے ھیں مثلاً کہتے ھیں فلاں آیت فلاں نبی یاملائکہ کی مدحت کے بارے میں نازل ھوئی ھے لیکن اسباب نزول کسی حادثہ یاحالات کے پے درپے واقع ھونے کے سلسلے میں نازل ھونے والی آیت یاآیات کو کہتے ھیں با الفاظ دیگر وہ حالات اور واقعات جو ان آیات کے نازل ھونے کا سبب نھیں ھیں۔

 

تنزیل اور تاٴویل کا فرق

گذشتہ لوگوں کی اصطلاح میں ”تنزیل“نزول کے موردمیں کھا جاتا تھا اب یہ مورد چاھے کوئی خاص واقعہ کا ھو جو آیت کے نزول کا سبب بنا ھومگر’ ’تاٴویل“ ایک عام مفھوم ھے جو ایک آیت یا چند آیات سے نکالاجاتاھے اور اس کو مناسب حالات پرمنطبق کیاجاتاھے بعض دیگر تعبیرات میں دو اصطلاحیں”ظھروبطن“کی کھی جاتی ھیں جس میں ”ظھر“ سے مراد وھی تنزیل ھے ااور”بطن“ سے مراد تاٴویل ھے کیونکہ آیت کا ظاھری مفھوم نزول کے مورد کو سمجھاجاتا ھے اور آیت کاباطنی مفھوم وسیع تر ھوتا ھے،فُضیل بن یسار اس مشھور ومعروف حدیث کو پیغمبر (ص)سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:”مافی القرآن آیة الا ولھاظھر وبطن“”یعنی قرآن میں کوئی ایسی آیت نھیں کہ اس کاایک ظاھر اور ایک باطن نہ ھو“۔پھر جب اس حدیث کے بارے میں امام جعفر صادق (ع) سے سوال ھوا تو حضرت نے جواب دیا:”آیت کے ظاھرسے مراد آیت کا نزول ھے اور باطن سے مراد اس کی تاٴویلات ھیں جس میں سے کچھ پھلے واقع ھو چکی ھیںاور کچھ ابھی پیش نھیں آئی ھیں قرآن ھمیشہ زندہ وجاوید اور قابل استفادہ ھے جس طرح چاند وسورج کا چکر ھے“۔([3])

دوسری حدیث میںارشادفرمایا:”ظاھرقرآن سے مراد وہ حالات،واقعا ت اور کردار ھیں جن کے بارے میں آیات نازل ھوئی ھیں اور باطن قرآن سے مراد وہ حالات اور واقعات ھیں جو گذشتہ حالات وواقعات یا کردار کی طرح تاقیامت پیش آنے والے ھیں“۔([4])

فقھاء نے شان نزول اور تنزیل وتاٴویل آیات کے بارے میں ایک قاعدہ بنایا ھے جس کے تحت آیت کے مفھوم یا اس کے عام وخاص کو معلوم کیا جاسکتاھے یعنی اگر آیت کامعنی عام ھے تو اگر چہ کوئی خاص سبب اس کے نزول کا باعث ھوا ھو تب بھی اس کا استعمال محدود ومخصوص افراد یاموارد کے ساتھ منحصر نھیں ھوگا،ایک مجتھد میں یہ خصوصیات ھونی چاہئے ھیں کہ وہ موارد نزول کو چھوڑ تے ھوئے لفظ کے عام معانی جوانب سے استفادہ کر سکے البتہ متن آیت کو سمجھنے کے لئے اسباب نزول کا سمجھنا بھی مفید ھے مگر صرف یھی کافی نھیں ھے کیونکہ احکام الٰھی عمومی ھیں جو تمام حالات اورزمان ومکان لئے ھیں لہٰذا لفظ کی عمومیت زیادہ معتبر ھے لفظ کی خصوصیت کی نسبت جیسا کہ فقھی قاعدہ ھے۔”العبرة بعوم اللفظ لابخصوص الموارد“۔

 

اسباب نزول جاننے کا طریقہ

اگر چہ آیات کے اسباب نزول کا جاننا تھوڑا مشکل ھے کیو نکہ گذشتہ لو گوں نے اس سلسلے میں کوئی خاص دقت وکوشش نھیں کی ھے ممکن ھے اس کی ایک علت تحریر کے لوازمات اور وسائل کا مسئلہ ھو جس کی وجہ سے وہ لوگ اپنی معلومات کی تحریر ی طور پر نہ لا سکے ھوں یا بعد میں اس سلسلے میں ایسی روایات نقل ھوئی ھوں جو سند کے لحاظ سے ضعیف ھوں یا قابل اعتماد نہ ھوں یا ان میں دوسروں کے اغراض ومقاصد پو شیدہ ھوں خصوصاً بنو امیہ کے دور میں صاحبان حکومت بے شمار آیات کی شان نزول کو اپنی مرضی سے تفسیر وتاٴویل کرتے تھے،امام احمد بن حنبل سے اس سلسلے میں نقل ھے کہ تین قسموں کی روایات کی کوئی اصل وبنیاد نھیں ھے۔

۱۔وہ روایات جو صدر اسلام کی جنگوں کے بارے میں نقل ھوئی ھیں۔

۲۔وہ روایات جو آخری زمانے کے فتنوں کے باے میں نقل ھوئی ھیں۔

۳۔وہ روایات جو قرآن کی تفسیر وتاٴویل کے سلسلے میں نقل ھوئی ھیں۔



back 1 2 3 4 next