اھل بیت علیھم السلام زمین و آسمان کے ستون



زمین و آسمان کا استوار رہنا اھل بیت علیھم السلام کی معنویت، نورانیت اور توجہ کی بدولت ھے اور ان کا ملکوتی اور روحانی سرمایہ اور روحی طاقت نیز قلبی طاقت خود انھیں حضرات سے مخصوص ھے اور کوئی بھی بشر یا فرشتہ ان کے مقام تک نھیں پہنچ سکتا، لیکن تعجب یہ ھے کہ ان تمام فضائل و کمالات کے باوجود یہ حضرات خاکسار، فروتن، خاضع اور متواضع ھیں![5]

 

اھل بیت علیھم السلام، انسانوں کی تربیت کرنے والے رہبر

زمین اور شاید دیگر کہکشانوں کی خصوصیت میں سے بہت سے معدنوں کا ھونا بھی ھے جیسے سونا، چاندی، تانبا، لوہا، عقیق، فیروزہ اور الماس وغیرہ۔

تمام ھی انسان معدن کو با ارزش شئے، پُر قیمت، مفید، سودمند اور انسانی زندگی میں بہت مفید شئے مانتے ھیں۔

معدن کی تلاش، معدن کی پہچان، معدن کا نکالنا، معدن سے نکلی ھوئی اشیاء کو کارخانوں تک لے جانا اور ان کو اشیائے زندگی میں تبدیل کرنا ان حقائق میں سے ھے کہ قدیم زمانہ سے ہر طرح کی زحمت کو برداشت کرتے ھوئے، جاری و ساری ھے۔

معادن میں سے جو چیز ھمیشہ سے انسان کی نظر میں بااھمیت اور پُر ارزش تھی اور رھے گی وہ سونے کی کان ھے، انسان اس معدن کی نسبت کبھی بھی بے توجہ نھیں رہا ھے، انسان اس معدن کی پہچان اور اس کو پانے کے لئے سعی و کوشش کرتا ھے، اور پھر سونا نکالنے کے لئے بہت زیادہ زحمتیں برداشت کرتا ھے اور پھر اس کو کارخانہ لے جاتا ھے اور ہزار طریقوں سے پتھر اور مٹی کو الگ کرکے خالص سونے کے عنوان سے اس کو بازار میں لے جاتا ھے۔

اس کے بعد بہترین اور ماہر کاریگروں کے ذریعہ درھم و دینار وغیرہ میں تبدیل کیا جاتا ھے کہ ملک کا اقتصادی نظام گھومتا رھے یا پھر اس سے ہار، گوشوارے، دست بند اور انگوٹھی وغیرہ بنائی جاتی ھیں تاکہ انسان کی زیباپسندی کی خواہش کو سیراب کرسکے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ تمام آسمان اور زمین ایک معدن کی طرح ھیں اور اس معدن کا جاننے والا کہ جس کا علم بے انتہا ھے خداوندعالم ھے۔

اس عظیم الشان معدن کے عالِم خدا نے سونے جیسی ایک موجود بنام انسان خلق کی اور اس کو زمین پر بھیجا تاکہ اپنی فطری استعداد، مقام خلافت الٰھی اور اپنی عقلی قدرت کو اپنی تمام تر سعی و کوشش کے ذریعہ ظاہر کرے اور اپنی دنیا و آخرت و ابدی سعادت کو آباد کرے اور خداوندعالم کے اہداف کو ایمان و یقین اور اخلاق حسنہ سے مزین ھونے نیز احکام الٰھی کو انجام دیتے ھوئے پایہ تکمیل تک پہنچائے اور آخر کار خود اپنے اور دوسروں کے لئے خیر و برکت کا مرکز قرار پائے اور صفات الٰھی کو اپنے وجود سے ظاہر کرے۔

یہ تمام چیزیں صرف اس حقیقت کے زیر سایہ ممکن ھے کہ انسان کے وجود کا سونا خدا کے منتخب رہبروں اور آسمانی معلموں کے اختیار میں دیا جائے تاکہ وہ انسان اور دیگر حقائق کی نسبت اپنے وسیع علم کی بنا پر اس خالص سونے کو سو فیصد الٰھی موجود بنائیں۔



back 1 2 3 next