طب الصادق (علیہ السلام)

آقائی نصیر الدین صادقی تہرانی


پیش لفظ

طبیب کون ہے؟ جو طباعت اِس کتابت میں موضوع گفتگو ہے اس سے وہ طبابت مقصود ہے، جس میں جسم و روح دونوں کے عوارض سے بحث ہوتی ہے ۔ اِس لئے کہ آدمی دو چیزوں ’روح اور جسم‘ سے مرکب ہے اور ہر ایک کی سلامتی اور بیماری ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا اِنسان صحیح و سالم وہ ہے جو دونوں حیثیت سے سلامتی رکھتا ہو۔۔۔۔! اگر کوئی حقیقی طبیب ہونا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بذریعہ معالجہ اِنسانیت کی خدمت انجام دے تو اُس کو جسم وروح دونوں کا طبیب ہونا چاہئے ۔ یعنی رنج و غَم و اَندوہ روحانی کا بھی معالج ہو جس طرح عوارضات جسمانی کا جو طبیب روحانی علاج سے ناواقف ہے اگر وہ روحانی امراض کا مُسہل سے علاج کرے گا تو ظاہر ہے کہ مریض کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یا مثلًا فِکر و خیال وناراحتی روح کی وجہ سے اگر کسی کو نیند نہیں آتی اور پریشان ہے تو اس کو خواب آور گولیاں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتیں بجز قدرے سُلا دینے کے ۔اِسی طرح اگر بیخوابی اَمراض جسمانی کی وجہ سے ہے ۔ تو روحانی علاج اور پند و نصائح مفید، اسکو کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے ۔ لہٰذا طبیب کامل اور حاذِق وہی ہو سکتا ہے ۔ جو جسمانی اور روحانی تمام امراض اور انکے علاج سے واقف ہو اور ایسا طبیب سوائے برگزیدگانِ خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اِسلام میں روح وبدن اگرچہ دوجداگانہ چیزیں ہیں لیکن ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کی سلامتی دوسرے کی سلامتی پر موقوف ہے ۔ اسلام کے رہبروپیشواوٴں نے آپ کو طبیبِ روحانی کی صورت میں اگرچہ پیش کیا مگر وہ طبیبِ جسمانی بھی تھے ۔ ان کے طبیبِ جسمانی ہونے کا ایک یہ نمونہ ہی ثبوت کے لئے کافی ہے کہ انھوں نے پاکیزگی و طہارتِ بدن کے لئے وضو۔غسل اور تیمّم مختلف نجاستوں س پاک ہونے کو لازمی قرار دیا۔ تاکہ اَعضاءِ ظاہری گرد و غبار سے آلودہ ہو کر مُضر صحت نہ بنیں ۔ انبیاء جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے رہبر بن کر آئے ۔ اُنکا اصلی مقصد صرف یہ تھا کہ انسان کو آموزگار اَخلاق و دِین بَن کر روحانیت کی اِرتقائی منازل طے کرائیں ۔ کیونکہ انسان اگرچہ جسم و روح کا مرکب ہے لیکن درحقیقت اِنسانیت روح کا نام ہے اور جسم ایک آلہ رُوح ہے ۔ انبیاء نے سلامتیِ بدن کی طرف توجہ صرف اس حد تک دی ہے کہ صحتِ جسم، صحتِ روح کا باعث بن کر روحانی منازل طے کر سکے ۔ درحقیقت اَنبیاء اَطباء اَرواح و عقول ہیں کیونکہ عقل و دِل بھی جسم کی طرح ہوتے ہیں ۔ پیغمبرِ اِسلام کا قول(ارشاد) ہے ۔ انّ ھٰذا القلوب تمل کم تمل الا بدان۔ یعنی یہ دِل بھی بدن کی طرح بیمار ہوتے ہیں ۔ علی ابن ابی طالب علیہ اسلام کا اِرشاد ہے ۔ بدن کی چھ(۶)حالتیں ہیں ۔ صحت، مرض،خواب،بیداری،مَوت اور حیات۔ اور اسی طرح رُوح کے واسطے صحت اسکا یقین ہے ۔ مرض شک یا تردید ہے ۔ خواب اِسکی غفلت ہے،بیداری توجہ ہے ۔ موت نادانی ہے ۔ حیات دانش ہے ۔

 

اِمام رَہبر دیں، و رَہنما ءِ اَرواح ہے

اگرچہ اس کتاب میں طبِ جسمانی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بحث کی گئی ہے لیکن مقصودِ امام بھی یہی ہے کہ تن آلہ کا رُوح ہے، رُوح کی کارفرمائی کے لئے جسم کا صحیح ہونا ضروری ہے․ تاکہ روح اور عمل میں اِرتباط قائم رہے ورنہ دین کی طبابت کا مقصد عقل کی سلامتی ہے ۔ کیونکہ اِنسان کا مکلف ہونا عقل پر موقوف ہے ۔ اور عقل ہی کی وجہ سے اِنسان اشرف المخلوقات ہے ۔ اِس لئے وہ معالجات جو عقل کو ضعیف یا فنا کر دیتے ہیں، اِسلام میں وہ مَوت کے مساوی ہیں ۔ دین اجازت نہیں دیتا کہ انسان مر جائے اگرچہ ایک لمحہ ہی کی موت ہو یعنی عقل جو حیات ہے اِس کو زائل کر دے ۔ اسی لئے اسلام شراب و قمار اور ہوس رانیوں کے خلاف ہے کیونکہ یہ دُشمنِ عقل یعنی دُشمنِ حیات ہیں ۔ قرآن ایک سفر نامہ روح ِ اِنسانی ہے اور ایک وہ رسی ہے کہ جس نے اُس کومضبوط پکڑ لیا وہ آسمانِ عقل و خِرد پر جا پہنچا اور مُعارف و علوم کا عالم ہو گیا مگر ہر شئے کے عِلم کے لئے ’حواس خمسہ‘ کی ضرورت ہے ۔ پیغمبرِ اسلام کا ارشاد ہے ۔ من فقد حساً فقد علماً۔یعنی جس نے ایک حِس ضائع کر دی ایک حصہ علم کا ضائع کر دیا۔ لہذا جس قدر جسم صحیح اور سالم تر ہو گا ’حواس خمسہ‘ بھی کامل تر ہوں گے اور اُن کے معلومات بھی زیادہ ہوں گے ۔ ٍ جو پیغمبر علمِ طِب سے ناواقف ہے وہ تربیتِ روح کے فرائض بھی انجام نہیں دے سکتا اور جو کتاب صحتِ جسمانی کی ضامن نہیں وہ روح کی تربیت میں بھی قاصر رہے گی۔ خدا نے ہرگز ایسا پیغمبر اور ایسی کتاب نازل نہیں فرمائی ہے ۔ اِرشاد حضرت امام رضا علیہ السلام ہر درد کی شفا قرآن میں ہے ۔ قرآن سے شفا چاہو۔ جسکو قرآن سے شفا حاصل نہ ہو اُس کو کوئی چیز شفا نہیں دے سکتی۔ یہ بے شک خدا کی کتاب ’ہُدیٰ‘ ہے ۔ یہ نسخہ نیا ہر مرض کی دوا ہے اِنسان اگر سوچے اور غور کرے تو اس میں روحانی نسخوں کے ساتھ ساتھ صحتِ جسمانی کی ضروریات وابسطہ نظر آتی ہیں جہاں نماز پڑھو، زکوة ادا کرو، کے شربتِ رُوحِ افراز کا ذِکر ہے وہاں نماز کی فضیلت میں یہ بھی حکم ہے کہ مساجد میں ادا کرو تاکہ ہر قدم پر روحانی اِرتقاء کے ساتھ جسمانی چہل قدمی بھی ہو کر معاون صحتِ جسمانی ہوتی رہے ۔ مسجد میں حضورِ معبود نماز کی ادائیگی کے ساتھ جہاں روحانی قُربت حاصل ہو، وہاں قیام و رُکوع و سجود کے حکم سے ورزشِ جسمانی کی رعایت بھی نسخہ میں رکھ دی گئی۔ قرآن جہاں نیک اعمال اور مفید اَشیاء کا حکم دیتا ہے وہاں مضر افعال اور مضر اشیاء کو ممنوع قرار دے کر روح اور جسم دونوں کی صحت کا خیال رکھتا ہے ۔ اگر صحت روح کے لئے نماز کا حکم دیا گیا ہے تو مضرِ صحت شراب سے بار بار منع فرمایا ہے ۔ چناچہ سورہ مائدہ آیت نمبر۹۰،۹۱،اور سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۱۹، میں ارشاد ہوتا ہے’اے ایمان والوشراب، قمار اور مجسمہ وغیرہ شیطانی کاموں میں سے ہیں ۔پس ان سے دور رہو۔ شاید نجات پالو۔ بیشک شیطان چاہتا ہے کہ شراب و قمار کے ذریعہ تم میں باہمی دشمنی کردے اور تم کو یادِ خدا اور نماز سے باز رکھے ۔ کیا تم ایسے مرد ہو کہ ہَواوہَوس سے منہ موڑ کر پرہیز گار بن جاوٴ‘ سورہ بقر، آیت نمبر۲۱۶ میں ارشاد ہوتا ہے ٍ’یہ لوگ ’شراب و قمار ‘ کے بارے سوال کرتے ہیں تو کہ دو کہ دونوں میں بڑا نقصان اور فائدہ ہے مگر فائدہ سے کہیں زیادہ نقصان ہی‘ اَقِییْمُواالصَّلوٰةَ کے ساتھ لَا تَقْرَبُو االصَّلوٰةَ وَاَنْتُم سُکاَرَا۔ بھی ہے آج مدہوشان و مئے نوشانِ مغرب بھی چلا رہے ہیں کہ شراب کے وقتی اور تھوڑے سے فائدہ میں سینکڑوں رُوحانی اور جسمانی قابلِ نفرت مُہلک اَمراض پوشیدہ ہیں ۔ یہ جہاں تھوڑی دیر کو خواب آور گولی کی طرح یاعمل جراحی میں جسم کو بے حِس کرکے سکون بخش نظر آتی ہے اور عقل و خِرد ، ہوش و حَواس کو زائل کر کے اِنسان کو حیوان بنا دیتی ہے، وہاں بے شمار اَمراض کا غمناک پیغام مَیخور کیواسطے اپنے ساتھ لاتی ہے ۔ ضُعفِ باہ، ضُعفِ اعضاء، سِل، اَمراضِ سوداوی اور دِق وغیرہ کاواحد سبب یہی بادہء بدبخت ہے ۔ یہی عقل وخِرد پر پردہ ڈالکر بیگانوں کو یگانہ اور اپنا ہمراز دِکھلا کر راز سر بستہ کو ظاہر کر دیتی ہے اور یگانوں کو بیگانہ دِکھلا کر باپ سے بیٹے کو کبھی قتل کرا دیتی ہے ۔ بلکہ شرابی کے مضر اثرات نسلاً بعد نسلً اولاد کو وارثتاً پہونچتے ہیں ۔ کتاب وسائل الشیع (جلد دوم) میں صادق اٰلِ محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی لڑکی شرابخور کو دی اُسنے قطعِ رحم کیا‘۔۔۔شاید مراد یہ ہے کہ اُس نے دُختر کی نسل ہی کو منقطع کر دیا۔ حلیةُ المتقین میں ہے کہ اپنی اولاد کے لئے شراب پینے والی اور سور کا گوشت کھانے والی دایہ مت مقرر کرو کہ اُسکا دودھ اُس بچہ میں یہی اَثر انداز ہو گا۔

 

اِسلام و تندرستی

ہر شخص اِس کو تسلیم کرتا ہے کہ سب سے ضروری اور لابدی چیز تندرستی کے لئے اِطمینانِ قلب وسکونِ دل ہے ۔ لہذا تندرستی کے لئے سکونِ قلب جب ضروری ہوا تو اَب دیکھنا یہ ہے کہ سکونِ قلب یا اَمنیت کِس طرح حاصل ہو۔ سکونِ قلب اُسی کو حاصل ہو سکتا ہے جو اپنے مرض کو اور صحت کو خدا کی طرف سے جانے اور اس پر اعتقاد کامل رکھتا ہو۔ چنانچہ خدا خود فرماتا ہے کہ اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔ ایسے مریض کو اگر دُنیا کے تمام اطبائے اور ڈاکٹر جوابدے دیں تو پھر بھی وہ زندگی سے مایوس نہیں ہوتا اور اسکو یہ یقین ہوتا ہے کہ خدا اسکا مدد گار ہے، اسی کے ہاتھ میں شفا ہے ( سورہ الرعد آیت نمبر۲۸) کیا اِنسان آزاد پیدا ہوا ہے؟ ہاں یہ درست ہے کہ انسان آزاد پیدا کیا گیا ہے مگر کس حد تک؟ کیاآزادی کے یہ معنی ہیں کہ اگر انسان چاہے تو وہ ایک درخت بار آور پھل پھول، لانے والا بن جائے؟یا اگر چاہے تو کبوتر کی طرح فضا میں پرواز کرتا پھرے؟ یا مچھلیوں کی طرح ہمیشہ پانی میں زندگی بسر کرے؟ ہر گز ایسا نہیں، بلکہ اس حدود میں جس میں اس کو خدا نے قدرت دی ہے، آزاد ہے اور انسان کوصرف اسی آزادی سے فائدہ اُٹھانا چاہئے، جو اللہ نے اُسے عطا کی ہے، قدرت اِنسان کو اپنے ایک بنائے ہوئے قانون کے دائرہ میں آزاد رکھنا چاہتی ہے، قانونِ قدرت اِجازت نہیں دیتا کہ انسان جو چاہے وہ کرتا پھرے ۔ وہ اپنے مال و متاع کو بے جا، بے مَصرف صَرف نہیں کر سکتا۔ ہر قسم کی اچھی بُری بات زبان سے نہیں نکال سکتا۔ ہر قسم کی غذا اور ہر طرح کا لباس بھی اپنی رائے سے نہیں کھا اور پہن سکتا۔ اسکو حق نہیں کہ وہ دوسروں پر دست درازی یا دوسروں کی حق تلفی کر سکے ۔ دوسروں کا کیا ذِکر وہ خود اَپنے کو بھی تلف نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ خدا نے اس کو عقل عطا کی ہے ۔ اور عقل ایک شترِ بے مہار کیلئے مہار اور نکیل کا کام کرتی ہے ۔ لہٰذا انسان آزاد ہوتے ہوئے مُقید اور مُقید ہوتے ہوئے آزاد ہے ۔

 

مُقدمہ تالیف کتاب

ہزاروں حمد و سپاس اُس خدا کی جو دونوں جہاں کا پروردگار ہے ۔اور بیشمار درود و سلام اس کی برگزیدہ مخلوق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آلِ پاک پر۔ صادق آل محمد، امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات پر قلم اٹھانے والے کے واسطے انتہائی آسانی اِس لئے ہے کہ آپ کی ذات جامع الصفات، حامل الانواع، علوم و معارف، علم و حکمت، فلسفہ و اَدب، تمام فضائل انسانیت اور مکارم اخلاق کی بدرجہ اَتم حامل ہے ۔ مورخ یا شاعر آپ کی جس صفت کا ذکر کرے یا جس عنوان پر قلم اٹھائے بے تامل مضامین کے دریا بہا سکتا ہے ۔ بنابریں میری آتشِ شوق نے چاہا کہ میں بھی اِس نورِ الہٰی کی روشن و تابناک زندگی پر جو شکستہ زندگیوں کو زندگی بخش اور مافوق البشر حیات ہے، کچھ لکھوں ۔ مگر حیران تھا کہ ایسے جامع الفضائل کی کون سی فضیلت اور ایسے مجمع الصفات کی کونسی صفت کا بیان کروں، سوچا کہ اِس بحرِ بیکراں میں غواصی اور میدان میں لااِنتہا میں جولانی مشکل و دشوار ہے نہ لکھوں یا نہ لکھوں، تو کہاں سے ابتداء کروں، اور کون سے دروازہ سے داخل ہوں، بالآخر یہ طے کیا کہ فی الوقت نہایت مختصر بیان تاریخ طِب عرب کا کیا جائے اور یہ دِکھایا جائے کہ یہ بچہ گہوارئہ نشوونما سے چل کر کس طرح سر زمینِ عرب اور اس ماحول میں سرحدِ جوانی تک پہونچا، اور کس طرح آغوشِ اِسلام میں پرورش پا کر عقل سلیم اور فکرِ مستقیم کی مدد سے ایک رہبرِ کامل اور ہادیِ عاقل بنا۔ لہٰذا طِبِ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ذکر صرف اس لئے کیا گیا کہ قارئین اِسکو پڑھ کر بہ حد ِ بصیرت امام عالی مقام کی روحانیت کے بلند مقام کا کچھ اندازہ لگا سکیں، اور علمِ لدنی کی کچھ جھلکیاں دیکھ سکیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ علم ِ امام درسی و کسبی نہ تھا بلکہ وہبی اور صرف وہبی تھا، جو امام کو وراثتاً اپنے آبائے کرام اور اجداد عُظام سے اور اُنکو نبی خیرُ الانام سے اور نبی کو جبرئیل نیک نام سے، اور جبرئیل کو کلام لا کلام سے عطا ہوا تھا۔

 

تاریخ آغازِ طِب

علم طب کے آغاز و ابتداء کے بارے میں اقوالِ عُقلاء مختلف ہیں، بعض مورخین نے اِس علم کی ایجاد کا سہرا کلدانیاں کے سر باندھاہے، بعض مورخ جادوگروں کو اس کا موجد بتلاتے ہیں، بعض کاہنانِ مصر کو اور اکثر نے عقلاء و فلاسفہء یونان کو علم طب کا موجد او ر بانی بتلایا ہے ۔ طب درمیان عرب اہلِ عرب نے فارس و روم کے ہمسایہ ممالک سے طب کو حاصل کیا، اور سب سے پہلے طبیب عرب میں ابنِ خدیم ہوا وغیرہ وغیرہ اطبائے اِسلامی اسلام میں سب سے پہلا طبیب خالد ہوا پھر یکے بعد دیگرے نوبت جرجیس تک پہونچی ۔جس نے بغداد میں رہ کر اکثر سریانی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا، اور بغداد میں امراضِ جسمانی کے علاج میں نمایاں شہرت حاصل کی۔ اکثر اہلِ دانش کو طبیب بنایا،لیکن یہ کتاب جو ہم پیش کر رہے ہیں، یہ اقتباس اور اختصار ہے رہنمائے طبِ امام جعفر صادق علیہ السلام کا۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں احادیث صحیح نقل کی گئی ہیں ۔ علم طب کے عمدہ اور بے بہا مطالب ہیں وہ مناظرات ہیں جو امام اور حریفانِ امام میں پیش آئے ہیں اور وہ دلائل ہیں جن سے اِمام کا علمی و طبی مقام روشن و مبرہن ہوتا ہے ۔ امام جعفر صادق در عصرِ منصور امام علیہ السلام کی عدالت زمانہءِ منصور دوانیقی میں اہلِ فضل و فضیلت کا مرکز اور دانش و حکمت کی ایک بڑی درسگاہ تھی۔ تشنہ گانِ معرفت آپ کے دریائے علوم سے سیراب ہوتے اور مشتاقانِ اسرار و حکمت رازہائے سربستہ کو اپنے کانوں سے سنتے تھے ۔ کتاب توحید مفضل اور بعض مناظرات امام جو اطباءِ ہمعصر سے ہوئے وہ آپ کے مقام علمی اور حکمت تک پہونچنے کیلئے کافی و وافی ہیں ۔ اُن رموزو اسرار کا جن کا انکشاف آپ نے اس وقت فرمایا، آج بھی کافی زمانہ گزر جانے کے بعد عصر حاضر کو اسکے اعتراف پر مجبور کر رہا ہے ۔ اصل کلام:۔ کتاب مقدس یعنی قرآن خدا کے مقدس و برگزیدہ شخص یعنی محمد عربی پر نازل ہوئی۔ ضروریات و لوازم حیاتِ انسانی کلیةً اس میں جمع کر دی گئیں ۔ مَالِ ھَذَاالْکِتٰبِ لَا یُغَا دِ رُ صَغِیْرَةً وَّ لَا کَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰہَا (الکہف آیت نمبر۴۹) ہر چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو اس میں جمع نہ کر دی گئی ہو۔۔۔۔یہ کتاب ہر زمانہ کی ضروریات اور ہر دور کے لوازمات ماضی ، حال اور مستقبل سب کو اندر لئے ہوئے ہے ۔ یہ ہر وقت کے لئے ایک مکمل قانون اور ہر مرد کیلئے ایک مصلح آئین ہے ۔ اِس خالقِ کُل نے جو دلِ ہر زرہ اور نفسِ ہر جان سے واقف ہے ۔ اس کتاب کو اپنے راست گو ترین پر برائے سعادتِ انسانی نازل فرمایا، تا کہ گمراہانِ حقیقت کو اس کتابِ ہدایت کے ذریعہ راہِ راست پر لگا کر رحمت خداوندی کا مستحق بنائے ۔ لہذا خالقِ حقیقی پر یہ لازم تھا کہ اس کتاب میں فلاحِ انسانی کے ہر گوشہ پر روشنی ڈالے تاکہ انسان اپنے ہر فریضہ کو ادا کر سکے ۔ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت و رحمت و بشارت ہے ۔ اس میں علم و دانش کے خزانے پوشیدہ ہیں، جو ارشاداتِ آسمانی پر مشتمل ہیں جنکو سوائے خدا اور راسخون فی العلم کے جو چراغِ ہدایت ہیں اور کوئی نہیں جانتا۔ (النحل آیت نمبر۸۹) ’راسخون فی العلم‘ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے رموز و اَسرارِ قرآنی سے واقف کیا ہے اور ان کو تمام مخلوق پر ترجیح دی ہے، اور یہی وہ لوگ ہیں جو راہِ سعادت و رحمت کے رہبر ہیں ۔ کیونکہ کتالیفِ قرآنی اور فرائض آسمانی صرف صاحبانِ عقل کے لئے مخصوص ہیں اور عقل سالم کیلئے بدن سالم کی بھی نہایت ضرورت ہے تو لُطف پروردار کا مقتضا یہ تھا کہ وہ اس کتاب میں صحت و سلامتی جسم کا بھی بندوبست فرمائے تاکہ انسان اپنے فرائض کو بخیرو خوبی انجام دے سکے ۔ چنانچہ قرآن صحتِ بدن اور سلامتی جسم کا بھی اسی طرح ذکر کرتا ہے جس طرح صحتِ روح کا۔ یعنی قرآن مجموعہ ہے طِب روحانی اور طِب جسمانی کا۔۔ قرآن نے طِب جسمانی کے اس اصول کو جسکو حُکمائے سابقہ نے از اِبتداء تخلیق تا اِیندم اصل اصولِ طِب جسمانی قرار دیاہے بلکہ یہ اصول تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ صرف تین لفظوں میں بیان کرکے دریا کوزے میں سما دیا ہے ۔ مختصر ترین آیت میں مکمل طِب:۔ سورئہ اِعراف آیت نمبر۲۹، میں ارشاد ہوتا ہے وَکُلُوْاوَاشْرَبُوْ ا وَلَا تُسْرِفُوْ:۔ یعنی کھاوٴ۔پیئو اور اسراف نہ کرو۔۔۔ تمام تر اطباء بعد تحقیقاتِ علمی اور آزمائشِ طولانی اِس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ صحت و سلامتئی بدن کا انحصار کھانے اور پینے میں میانہ روی پر ہے ۔ اگر اعتدال کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو افراط و تفریط یقینی جسم کی خرابی اور بیماری کا سبب ہو گی۔ لہذا یہ چھوٹی سی آیت وہ مرکز اور محور ہے جس پر طبِ جسمانی کے تمامتر اُصول گھوم رہے ہیں ۔ طب کا پہلا اور سب سے مقدم مسئلہ ہی یہ ہے کہ تمام تر بیماریوں اور عوارضِ معدہ سے شروع ہوتے ہیں معدہ کی خرابی ہی یعنی پُر خوری معمول سے زیادہ کھا لینا ہی انسان کو بیمار کرتا ہے لہذا قرآن نے نسخہ تجویز کیا۔ وَکُلُوْ، کھاوٴ۔ وَاشْرَبُوْ۔پئیو۔ وَلاَ تُسْرِ فُوْ ۔ اسراف نہ کرو یعنی زیادہ نہ کھاوٴ ۔ اِعتدال کو پیشِ نظر رکھو۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ طب کے متعلق فرمان رسول بہ کثرت ہیں جو سلامتئی روح کے ساتھ سلامتئی بدن کے بھی ضامن ہیں، اِرشاد ختمی مرتبت ہے:۔ رَوَّحِ الْقُلُوْبَ سَاعَةً بَعْدَ سَاعَةٍ یعنی ہر چیز لحظہ کے بعد دِل کو آرام و راحت پہنچاوٴ۔ تمامتر خوب و بَد اثرات کا باعث انسان کا دل ہے ۔ دل کی سلامتی پر تمام اعضاء کی سلامتی موقوف ہے ۔ اور بیماری دِل تمام اعضاء کی بیماری کا واحد سبب ہے ۔ لہذا سلامتی اور صحت کا بہترین اصول دل کو خوش رکھنا ہے ۔ ایک فلسفی کہ مقولہ ہے کہ شادی بیماری کا بہترین علاج ہے ۔ خوشی اِنسان کو اپنی طرف متوجہ کرکے انسان کو ہزاروں بیماریوں سے نجات دِلا دیتی ہے ۔ ارشاد رسول:۔کل لھو باطل الا ثلث۔ تادیب الموٴللفرس و رمہ عن قوسہ وملاعبة امراتہ فانّھا حق۔ یعنی ہر بازی ناجائز ہے مگر تین(۳):۔ (۱) تربیتِ اسپ (۲) تیر اندازی (۳) تفریح بازنان ہر شخص کے نزدیک بازی و تفریح اِنسانی صحت و سلامتی کے لئے ضروری ہے ۔ کوئی دل کو خلاف شرع اشیاء سے خوش کرتا ہے ۔ اور شراب نوشی اور قمار بازی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ اور بعض عقل و دین سے کام لے کرعقل و دین کی بتلائی ہوئی تفریحات کو اختیار کرتا ہے اور جانتا ہے کہ انسان صرف کھیل کود کیلئے ہی پیدا نہیں کیا گیا۔ فرمانِ پیغمبر اِسلام کے مطابق ان تین چیزوں میں سے کسی ایک یا سب کو اختیار کرناہے ۔ بازی با اسپ یعنی گھڑ دوڑ جو دلکو بھی خوش کرتی ہے اور گھوڑے کو تربیت دیکر قابل جنگ و جدل بناتی ہے ۔ تیر اندازی تفریح کا سبب بھی بنتی ہے ۔ اور میدانِ جنگ میں بھی کام آتی ہے ۔ تفریح بازنان باعثِ نشاط بھی ہے ۔ اور موجب افزائشِ نسل ارشاد رسول:۔ المعدة بیت کل داؤالحمیہ راس کُلّ دوا۔ یعنی شکم ہر بیماری کا گھر ہے، اور پرہیز ہر علاج کا رازہے ۔ اطباء اور عقلاء کے نزدیک بھی ہر بیماری کی جڑ پُر خوری اور ناسازگار اشیاء ہیں ۔ ضرب المثل ہے، کہ بیماریوں کا باپ کوئی بھی ہو لیکن بیماریوں کی ماں یقینی غذائے ناسازگار ہے لہذا کھاتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ کونسی غذا مفید اور سازگار ہے ۔ غذا کے رنگ، لذت اور مزہ کے دھوکے میں نہ آنا چاہئے ۔ کسی نے خوب خوب کہا ہے کہ انسان کا منہ، شاید پیٹ سے بھی بڑا ہے جو اِ س قدر کہا جاتا ہے کہ ظرف یعنی پیٹ سما نہیں سکتا۔ ارشاد رسول:۔اعظ کُل بدن ماعودہة۔ یعنی بدن کو اپنی عادی چیزوں سے کامیاب بناوٴ۔ اِنسان ان مفید چیزوں میں سے بھی جس کا وہ عادی ہو گیا ہے اِستعمال کرے اس لئے کہ انسان اپنی زندگی کے کاموں میں سے جس چیز کا عادی ہو جاتا ہے وہ اسکے لئے آسان تر ہو جاتے ہیں اِسی لئے عادی غذا اس کے لئے آسان اور زودہضم ثابت ہوگی۔ البتہ اگر ناسازگار غذاوٴں کا عادی ہو گیا ہے تو ان کو بہ تدریج ترک کرنے کی اِنتہائی کوشش کرے ۔ ارشاد رسول:۔ لا تکرھو ا مرضا کُم علی الطعام فانّ اللہ یطعمہم و یستیھم۔ یعنی اپنے بیماروں کو ان کی خواہش کے خلاف کھانے پر مجبور نہ کرو کیونکہ ان کو خدا کِھلاتا اور پلاتا ہے ۔ بیمار کو غذا سے پرہیز طبیعت کے خدمات میں سے بڑی خدمت ہے ۔ اِس لئے کہ وہ مواد فاسدہ جو جسم میں جم کر بیماری کا باعث بنا ہے وہ نہ کھانے کی وجہ سے جل کر فنا ہو جائے ۔۔۔ معدہ ضعیف میں ثقیل غذا ہر گز نہ، پہونچانی چاہئے ۔ کیونکہ غذا ہضم نہ ہونے کی وجہ سے شکم میں سڑ کر مختلف مُہلک امراض سرطان وغیرہ کا سبب بنتی ہے، اور اکثرو بیشتر امراض بے انتہا غذا کھانے سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیاہے کہ جن لوگوں کی طویل عمر ہوئی ہے وہ اکثر پرہیزگار اور کم خوراک تھے ۔



1 2 3 next